یک طرفہ خلع جس میں شوہر کا ایڈریس غلط لکھ کر اس کو لا علم رکھ کر کورٹ سے خلع لیا جائے اس کا کیا حکم ہے ؟
خلع دیگر مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے،جس طرح دیگر مالی معاملات کے درست اور معتبر ہونے کے لیے عاقدین کی رضامندی شرعاً ضروری ہوتی ہے اسی طرح خلع کے درست اور معتبر ہونے کے لیے بھی جانبین (زوجین)کی رضامندی ضروری ہوتی ہے اور شوہر کی رضامندی کے بغیر یا ان کو لا علم رکھ کر جو خلع لیا جائے وہ شرعا ًمعتبر نہیں ہوتا ،اگر چہ وہ یک طرفہ عدالتی خلع کیوں نہ ہو ۔
یہ اصولی جواب ہے باقی آپ اپنے مسئلہ سے متعلق کورٹ کے فیصلہ سمیت ہمار ے دارالافتاء آجائیں یا کاغذات ( بمع ترجمہ) کے ساتھ دوبارہ سوال بھیجیں ،پھر آپ کے مسئلہ کے متعلق جواب دے دیا جائے گا ۔
فتاوی شامی میں ہے:
"فقالت: خلعت نفسي بكذا، ففي ظاهر الرواية لا يتم الخلع ما لم يقبل بعده."
(کتاب الطلاق،باب الخلع،ج:3،ص:440،،ط:سعید)
بدائع الصنائع میں ہے :
"أما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول."
(کتاب الطلاق،فصل فی شرائط رکن الطلاق، ج:3،ص:145 ،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144508102503
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن