بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

یک طرفہ خلع کا حکم


سوال

میری بیوی نے کورٹ سے یک طرفہ خلع لے لیا، جس پر نہ میں راضی ہوں اور نہ میں نے دستخط کیا ہے۔ معاملہ یہ تھا کہ میری بیوی میری اجازت کے بغیر اپنے والدین کے گھر جاتی تھی، پھر ایک دفعہ میری والدہ کا ہاتھ ٹوٹ گیا، تو میں والدہ کی خدمت کے لیے اُسے اپنے گھر لے آیا، میں کراچی آیا، چونکہ ہماری رہائش نوری آباد میں ہے تو میری ساس میری بیوی کو اپنے گھر لے گئی، وہاں پر چار مہینے رہ کر کورٹ سے خلع لے لیا، اب پوچھنا یہ ہے کہ کیا کورٹ کی یک طرفہ خلع سے نکاح ختم ہو گیا یا نہیں؟

جواب

خلع دیگر مالی معاملات کی طرح  ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر  مالی معاملات کے درست اور  معتبر ہونے کے لیے جانبین ( عاقدین) کی رضامندی ضروری ہوتی ہے اِسی طرح خلع کے درست اور  معتبر ہونے کے لیے بھی زوجین ( میاں بیوی) کی رضامندی ضروری ہوتی  ہے، لہذا اگر  سائل کی بیوی نے سائل  کی اجازت اور رضامندی کے بغیر عدالت سے خلع  لی ہے  اور عدالت نے اس کے  حق میں یک طرفہ خلع کی  ڈگری جاری کردی ہے تو شرعاً یہ خلع معتبر نہیں،  اس سے سائل کا اپنی بیوی سے نکاح ختم نہیں ہوا، دونوں کا نکاح بدستور باقی ہے۔

یاد رہے کہ شوہر کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنی بیوی کو اپنے والدین سے بات چیت کرنے یا ملاقات سے منع کرے، ملاقات کرنے میں تفصیل یہ ہے کہ اگر والدین اس کے پاس آسکتے ہیں تو وہ آئیں، ملاقات کر کے چلے جائیں، اور اگر ان کے لیے آنا ممکن نہ ہو تو ہفتے میں ایک بار ان سے ملنے جاسکتی ہے، تاہم اگر وہ دوسرے شہر میں رہتے ہوں اور ہرہفتے آمد و رفت مشکل ہو یا شوہر خرچہ برداشت نہ کرسکتا ہو تو شوہر کو بقدرِ گنجائش مناسب وقفے کے بعد ملاقات کے لیے بھیجنا چاہیے، نیز بیوی کا اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلنا بھی جائز نہیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرقة ولايستحق العوض بدون القبول".

 (كتاب الطلاق، باب الخلع 3/441، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا أراد الزوج أن يمنع أباها، أو أمها، أو أحدًا من أهلها من الدخول عليه في منزله اختلفوا في ذلك، قال بعضهم: لايمنع من الأبوين من الدخول عليها للزيارة في كل جمعة، وإنما يمنعهم من الكينونة عندها، وبه أخذ مشايخنا -رحمهم الله تعالى-، وعليه الفتوى، كذا في فتاوى قاضي خان، وقيل: لايمنعها من الخروج إلى الوالدين في كل جمعة مرةً، وعليه الفتوى، كذا في غاية السروجي، وهل يمنع غير الأبوين عن الزيارة في كل شهر؟ وقال مشايخ بلخ: في كل سنة، وعليه الفتوى".

( کتاب الطلاق، الباب السادس عشر، الفصل الثانی (11/415) ط: دار الفکر)

فتاوی شامی میں ہے:

"ولیس لها أن تخرج بلا إذنه أصلًا".

(ردالمحتار علی الدرالمختار، ج:3، ص:146، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100293

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں