بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

یک طرفہ عدالتی خلع اورناشزہ کا نفقہ


سوال

میری بیوی نے میری اجازت و رضامندی کے بغیر عدالت سے یک طرفہ خلع لیا ہے، میں نہ عدالت میں گیا اور نہ ہی کسی قسم کے دستخط کیے جبکہ میں اس کے تمام حقوق ادا کرتا تھا، اب معلوم یہ کرنا ہے کہ : 

(1) ایسا خلع شرعاً معتبر ہوگا؟

(2) میری بیوی مجھے سوتے میں چھوڑ کر چلی گئی تھی جبکہ میں نے اسے کہا تھا کہ میں تمہیں چھوڑنے چلا جاؤں گا، بغیر اجازت اپنی والدہ کے گھر چلی گئی تو کیا اس کا نان نفقہ مجھ پر ہوگا؟

جواب

(1) صورت مسئولہ میں آپ کی بیوی کو عدالت کی طرف سے جاری کی گئی یک طرفہ خلع کی ڈگری (جس کی نقل استفتاء کے ساتھ منسلک ہے) کا بغور جائزہ لینے کے بعد اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ اس  معاملے کو  شرعی خلع قرار نہیں دیا جاسکتا  کیونکہ خلع میاں بیوی کی باہمی رضامندی سے ہوتا ہے اور نہ  ہی تنسیخ نکاح قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ تنسیخ نکاح کی اپنی خاص شرائط ہیں جوکہ اس معاملے میں نہیں پائی جاتیں ، لہذاعدالت کی طرف سے یک طرفہ خلع کا فیصلہ دینے کے باوجودشرعی سقم پائے جانے کی وجہ سے  میاں بیوی کا نکاح برقرار ہے۔ 

(2) اگر بیوی آپ کی اجازت و رضامندی کے بغیر گھر سے گئی ہے تو وہ نان نفقہ کی مستحق نہیں ہے۔ 

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (3 / 145)

وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول ؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة ، ولا يستحق العوض بدون القبول۔         

(کتاب الطلاق،فصل رکن الخلع،ط:سعید)

الفتاوى الهندية (1/ 545)

وإن نشزت فلا نفقة لها حتى تعود إلى منزله والناشزة هي الخارجة عن منزل زوجها المانعة نفسها منه۔۔۔۔۔۔ وإذا تركت النشوز فلها النفقة۔

(كتاب الطلاق، الباب السابع عشر في النفقات، الفصل الأول في نفقة الزوجة، ط: رشيدية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144303100277

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں