بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

یک طرفہ عدالتی خلع شرعاً معتبر نہیں ہے


سوال

گیارہ ستمبر۲۰۲۱ء کو عدالت نے ہمارے بارے میں یہ فیصلہ سنایاکہ ہم میاں بیوی کا آپس میں نکاح ختم ہوگیا ہے اورمیری بیوی کی طرف سے جوخلع کا مقدمہ دائر ہوا تھااس کے مطابق اس کے لیے خلع کی ڈگری جاری کردی، میں عدالت میں حاضر ہوا تھا، جج نے مجھ سے طلاق دینے کا کہا اور میں انکار کرتارہا، نہ میں طلاق دینے چاہتا تھااورنہ خلع پر راضی تھا، اسی دوران عدالت نے میرے سامنے میری بیوی کے لیے یک طرفہ خلع کی ڈگری جاری کردی جبکہ میں اس پر بالکل راضی نہیں تھا اور اب بھی راضی نہیں ہوں، البتہ عدالت کے رعب اور عدالت کے ماحول کی وجہ سے میں زبان سے کچھ نہ کہہ سکا، عدالت نے خلع نامہ میں میری طرف یہ جھوٹ  منسوب کرتے ہوئے خلع کی ڈگری جاری کی ہے کہ "اگر مہر کی معافی پر مدعیہ کے حق میں خلع کی ڈگری جاری کی جائے تو اسے اس پر کوئی اعتراض نہ ہوگا"جبکہ میں حلفاً یہ بات  رد کرتا ہوں اور حلفاً کہتا ہوں کہ یہ بات عدالت نے میری طرف جھوٹ منسوب کی  ہےجبکہ مجھے اس بات کاپتہ بھی نہیں ہے ۔کیا شرعاً یہ خلع معتبر ہے ؟کیا ہمارا نکاح ختم ہوچکا ہے یابرقرارہے؟

جواب

واضح رہے کہ خلع ایک شرعی معاملہ ہے جوفریقین (میاں بیوی) کی رضامندی پر موقوف ہوتا ہے ، میاں بیوی میں سے اگر کوئی ایک بھی خلع پر راضی نہ ہو تو ایسی خلع شرعاًمعتبر نہیں ہوتی،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر  سائل کا بیان واقعۃً صحیح اوردرست ہے کہ شوہر (سائل) خلع پر رضامند نہیں تھاجبکہ عدالت نےازخود شوہر کی طرف یہ بیان منسوب کیا جس کا ترجمہ یہ ہےکہ  "اگر مہر کی معافی پر مدعیہ کے حق میں خلع کی ڈگری جاری کی جائے تو اُسے اس پرکوئی اعتراض نہ ہوگا"اور خلع کی ڈگری جاری کردی تو ایسی صورت میں یکطرفہ خلع شرعاً معتبر نہیں ہے ، نکاح حسبِ سابق برقرار ہے ،میاں بیوی دوبارہ سے ساتھ رہ سکتے ہیں ۔

ردالمحتار میں ہے:

وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول .

(رد المحتار،کتاب الطلاق، باب الخلع،ج:۳،ص:۴۴۱،ط:سعید)

تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق میں ہے:

ولا بدّ من قبولها؛ لأنه عقد ‌معاوضة أو تعليق بشرط فلا تنعقد المعاوضة بدون القبول، ولأن المعلّق ينزل بدون الشرط إذ لا ولاية لأحدهما في إلزام صاحبه بدون رضاه .

(تبیین الحقائق،کتاب الطلاق، باب الخلع،ج:۲،ص:۲۷۱،ط:امدادیہ ملتان)

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض.

(مبسوط، کتا ب الطلاق، باب الخلع، ج:۶،ص:۱۷۳،ط:دار المعرفۃ)

فقظ واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144305100042

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں