بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

یک طرفہ عدالتی خلع شرعاً معتبر نہیں ہے


سوال

میری  اہلیہ نے میرے نشہ کرنے کی بناپرکورٹ میں میں خلع کا کیس دائر کیا اور وکیل نے مجھ پر الزامات وغیرہ لگائےاور کورٹ کے ذریعے یک طرفہ فیصلہ کروایااور خلع لے لیا،میری اہلیہ کا کہنا ہے کہ میں نے صرف خلع کا کیس دائر کیا تھا باقی الزامات وغیرہ  وکیل نے کیس جیتنے کے لیے اپنی طرف سے لگائے ہیں تاکہ کیس جیت سکے، میری اہلیہ نے میرے نشہ کرنے کی بناپر خلع کا کیس دائر کیا تھا اور اب میں ٹھیک ہوگیا ہوں۔کیا یک طرفہ عدالتی خلع جبکہ وہ بھی  وکیل کی طرف سے الزامات وغیر پر مبنی ہو،شرعاً معتبر ہے یا نہیں؟ اب میری اہلیہ میرے ساتھ رہناچاہتی ہے اور میں بھی ساتھ رہنا چاہتا ہوں ،میرے اس مسئلہ کاشرعی حل بتادیں۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں منسلکہ  عدالتی یک طرفہ فیصلہ کو شرعی خلع قرار نہیں دیاجاسکتا؛ اس لیے کہ شرعی خلع کے لیے میاں بیوی دونوں کی رضامندی ضروری ہےجبکہ شوہر رضامند نہیں۔نیز اس فیصلہ کو شرعاً تنسیخِ نکاح بھی قرار نہیں دیاجاسکتا؛ اس لیے کہ تنسیخِ نکاح کی جو بنیادی شرائط ہیں کہ شوہر پاگل ہو،یانامرد ہو، گمشدہ ہو یاشوہر ظالم ہواور بیوی کو باوجود مال دار ہونےکے نان ونفقہ سے محروم کر رکھا ہو اور اس الزام کو دوشرعی گواہوں سےعدالت کے مسلمان جج  یا قاضی کے سامنے ثابت بھی کیا ہو۔جبکہ منسلکہ عدالتی فیصلہ میں شوہر موجود بھی نہ تھااور شرعی گواہوں سے عورت نے اپنا الزام ثابت بھی نہیں کیا، لہذا نکاح حسبِ سابق برقرار ہے، میاں بیوی دوبارہ سے ساتھ رہ سکتے ہیں۔

ردالمحتار میں ہے:

وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول .

(رد المحتار،کتاب الطلاق، باب الخلع،ج:۳،ص:۴۴۱،ط:سعید)

تبیین الحقائق شرح کنز الدقائق میں ہے:

ولا بدّ من قبولها؛ لأنه عقد ‌معاوضة أو تعليق بشرط فلا تنعقد المعاوضة بدون القبول، ولأن المعلّق ينزل بدون الشرط إذ لا ولاية لأحدهما في إلزام صاحبه بدون رضاه .

(تبیین الحقائق،کتاب الطلاق، باب الخلع،ج:۲،ص:۲۷۱،ط:امدادیہ ملتان)

مبسوطِ سرخسی میں ہے:

والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض.

(مبسوط، کتا ب الطلاق، باب الخلع، ج:۶،ص:۱۷۳،ط:دار المعرفۃ)

تکملہ فتح الملہم میں ہے:

ثمّ قد قصرت الشريعة الإسلامية حق الطلاق على الزوج، ولم يجعله بيد المرأة .... ولكنّها لم تسدّ باب الفرقة من جهة المرأة بالكلية، وإنما أباحت لها ذلك في ظروف خاصّة، فيمكن لها مثلاً أن تعقد النكاح بشرط تفويض الطلاق إليها، ولو لم تشترط ذلك في العقد فلها أن تختلع من زوجها برضاه، وإن لم يكن ذلك فلها أن تطلب من القاضي فسخ النكاح إذا كان زوجها عنيناً أو مجنوناً أو متعنّتاً أو مفقوداً.

(تکملہ فتح الملہم، کتاب الطلاق، الطلاق فی الشریعۃ الاسلامیۃ، ج:۱،ص:۱۳۴،ط:مکتبہ دار العلوم کراچی) 

فقظ واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100446

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں