بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

یک طرفہ عدالتی خلع معتبر نہیں / ذہنی ٹارچر کرنے کی وجہ سے بیوی کو تنسیخ کا حق نہیں ہے


سوال

  ہمارے عزیزوں میں میاں بیوی میں  ناچاقی کی وجہ سےعدالت سے خلع ہو گیا ہے، بچی صرف چالیس روز اپنے شوہر کے ساتھ رہی ہے اور گزشتہ پانچ ماہ سے اپنے والدین کے گھر میں مقیم ہے اور اس کے شوہر کا اور اس کا آپس میں کوئی رابطہ نہیں ہے،  خاندان کے بہت سے لوگوں نے صلح کروانے کی بہت کوشش کی ہے مگر وہ کامیاب نہ ہو سکے، اسی دوران بچی کے والد اس پریشانی کی وجہ سے شدید بیمار ہو گئے،  اب بچی نے عدالت کی طرف سے خلع حاصل کر لیا ہے، ابھی یہ معاملہ یونین کونسل میں چل رہا ہے،  شوہر بار بار نوٹس کے باوجود نہ تو عدالت میں پیش ہوا ہے اور نہ ہی یونین کونسل کی مصالحتی کونسل میں آنے کے لیے رضامند ہے۔  اور  اس نے  بیان جمع کروایا ہے کہ وہ بچی کو کبھی بھی طلاق نہیں دے گااور اس خلع کو تسلیم بھی نہیں  کرے گا۔  اور اس کے گھر والے بچی اور اس کے گھر والوں کو مسلسل ذہنی اذیت دے رہے ہیں۔ اور لڑکے والوں کا رویہ تضحیک آمیز ہے۔ برائے مہربانی ہماری رہنمائی  فرمائیں کہ اگر وہ لڑکا بچی کو طلاق نہیں دے گا تو اس قانونی خلع کی کیا حیثیت ہو گی؛ کیوں کہ لڑکا اور اس کے گھر والے بچی کو کسی بھی وقت پریشان کرتے رہیں گے۔ اور اس خلع کے بعد عدت کے احکامات پر بھی روشنی ڈال دیں ۔

جواب

واضح رہے کہ خلع کے شرعاً معتبر ہونے کے لیے میاں بیوی، دونوں کی رضامندی کا پایا جانا ضروری ہے، مذکورہ صورت میں شوہر اگر یکطرفہ عدالتی خلع کو تسلیم نہیں کرے گا تو یہ خلع شرعاً معتبر نہیں ہوگا اور اس کی وجہ سے نکاح ختم نہیں ہوگا۔

لہذا شوہر کو طلاق یا خلع پر رضامند کیا جائے، اگر وہ طلاق یا خلع دینے پر راضی ہوجائے تو صحیح اور اگر وہ راضی نہ ہو تو اس صورت میں اگر شوہر بیوی کے حقوقِ واجبہ (نان نفقہ، رہائش) میں کوتاہی کرتا ہے     توبیوی  مسلمان جج کی عدالت میں تنسیخ نکاح کا مقدمہ دائر کرے اور فسخ نکاح کی وجوہات( مثلا نان نفقہ نہ دینے) کو شرعی گواہوں سے شوہر کا قصور ثابت کرے، اس کے بعد اگر حقیقتِ حال کی تفتیش کر کے بیوی کا دعویٰ درست ثا بت ہو جائے تو جج نکاح کی تنسیخ کردے گا تو وہ تنسیخ شرعاً معتبر ہوگی اور اس سے بیوی کا شوہر سے نکاح ختم ہوجائے گا، اس کے بعد بیوی عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو، اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش) گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

صرف ذہنی اذیت دینے کی بناء پر بیوی عدالت سے تنسیخ نہیں کراسکتی، ایسی صورت میں خاندان کے معزز لوگوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ   شوہر کو اس سے روکیں یا پھر کسی طرح شوہر کو طلاق خلع دینے پر آمادہ کریں۔

الفقه الاسلامي و ادلته ميں هے:

"‌‌المقصود بالشقاق والضرر: الشقاق هو النزاع الشديد بسبب الطعن في الكرامة. والضرر: هو إيذاء الزوج لزوجته بالقول أو بالفعل كالشتم المقذع والتقبيح المخل بالكرامة والضرب المبرح، والحمل على فعل ما حرم الله، والإعراض والهجر من غير سبب يبيحه، ونحوه لم يجز الحنفية والشافعية والحنابلة  التفريق للشقاق أو للضرر مهما كان شديدا؛ لأن دفع الضرر عن الزوجة يمكن بغير الطلاق، عن طريق رفع الأمر إلى القاضي، والحكم على الرجل بالتأديب حتى يرجع عن الإضرار بها. وأجاز المالكية   التفريق للشقاق أو للضرر، منعا للنزاع...أخذ القانونان في مصر وسورية بمذهب المالكية فأجاز كلاهما التفريق للشقاق والضرر."

(القسم السادس: الاحوال الشخصیۃ، الباب الثانی: انحلال الزواج و آثارہ، الفصل الثالث: التفریق القضائی، المبحث الثالث: التفریق للشقاق او للضرر و سوء العشرۃ، ج: 9، ص: 7062، ط: دار الفکر)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101221

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں