رواں سال کے دوسرے ماہ میں میری زوجہ مجھ سے ناراض ہوکر اپنے میکے چلی گئی، جس کے بعد انہوں نے عدالت میں خلع کی عرضی دی، عدالت میں پیش ہونے کے تین نوٹس آئے، مگر میں کسی میں بھی پیش نہ ہوا، عدالت کی طرف سے اُن کو خلع کی ڈگری مل چکی ہے، مگر میں نے طلاق کا لفظ اپنی زبان سے ایک مرتبہ بھی ادا نہیں کیا، اب دونوں خاندانوں میں صلح ہو چکی ہے اور میری زوجہ کی بھی مجھ سے صلح ہوگئی ہے تو کیا اس صورت میں ہمارا نکاح جائز ہے یا نہیں؟
واضح رہےخلع بھی دیگر عام مالی معاملات کی طرح ایک مالی معاملہ ہے، جس طرح دیگر مالی معاملات میں جانبین کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، اسی طرح خلع میں بھی فریقین کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، کسی ایک فریق کی رضامندی کے بغیر خلع شرعًا معتبر نہیں اور نہ ہی عمومی احوال میں شوہر کی اجازت اور وکالت کے بغیر کسی اور کو طلاق دینے کا اختیار ہوتا ہے۔
بصورتِ مسئولہ اگر واقعتًا سائل (شوہر) نے خلع کے فیصلہ کو تحریری اور زبانی طور قبول نہیں کیا تھا تو یہ خلع شرعًا معتبر نہیں تھا، دونوں کا نکاح بدستور قائم ہے، نئے سرے سے نکاح کرنے کی ضرورت نہیں ہے، دونوں کا ساتھ رہنا جائز ہے، قانونی پیچیدگیوں سے بچنے کے لیے اگر نکاح کی ضرورت ہوتو دوبارہ نکاح بھی کرسکتے ہیں۔
ملحوظ رہے کہ ایسے یک طرفہ عدالتی فیصلے کو تنسیخِ نکاح بھی قرار نہیں دیا جاسکتا، کیوں کہ تنسیخِ نکاح کے لیے چند شرائط کا پایا جانا ضروری ہے اور وہ یہ کہ یا تو شوہر نامرد ہو، یا مجنون ہو، یا مفقود (لاپتا ہو) ہو یا متعنت (ظالم) ہو کہ بیوی کا نان نفقہ نہ دیتا ہو اور ظلم کرتا ہو، توایسی صورت میں عورت دو گواہوں کے ذریعہ مسلمان جج کے سامنے اپنا دعوی ثابت کرے، جج اپنے ذرائع سے عورت کے دعوی کی تحقیق کرے، اگر دعوی درست ہو تو شوہر کو پیغام بھیجے کہ اپنی بیوی کے حقوق ادا کرو ورنہ ہم تفریق کردیں گے، اگر وہ حقوق ادا کرے تو قاضی دعوی کو خارج کردے گا، لیکن اگر وہ حقوق کی ادائیگی پر راضی نہیں ہوتا یا اطلاع ملنے کے باوجود عدالت میں حاضرنہیں ہوا تومسلمان جج دونوں کے نکاح کو ختم کردے گا۔ (حیلہ ناجزہ ص: ۷۳ ط:دارالاشاعت)
متعلقہ صورت میں سے ہر ایک کی شرائطِ معتبرہ کی رعایت رکھی جائے، لہذا اگر یہ شرائط پائی گئیں تو عدالت کا فیصلہ شرعاً تنسیخِ نکاح ہوگا اور میاں بیوی میں جدائی ہوجائے گی اور اگر یہ شرائط مکمل نہ ہوں تو یک طرفہ عدالتی فیصلے کو تنسیخِ نکاح بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔
بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:
"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول،"
(كتاب الطلاق، فصل فى ركن الطلاق، ج:3، ص:145، ط:دارالكتب العلمية)
فقط والله اعلم
فتوی نمبر : 144205200562
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن