1996 میں میری شادی ہوئی تھی، پھر 2022 میں بیوی سسرال سے چلی گئی، اور یہ دعوی کیا کہ میرا شوہر نان نفقہ نہیں دے رہا، اس کے بعد اس نے کورٹ جاکر خلع کا کیس دائر کیا، کورٹ نے مجھے بلایا، میں کورٹ چلا گیا لیکن خلع پر رضامندی ظاہر نہیں کی، اس کے باوجود کورٹ نے یک طرفہ خلع کا فیصلہ سنادیا۔
میں نے کبھی زبانی یا تحریر طور پر طلاق نہیں دی ہے۔
سوال یہ ہے کہ عدالت کی جانب سے یک طرفہ خلع معتبر ہے یا نہیں ؟ اگر خلع معتبر ہے تو رجوع کی کیا صورت ہے؟
واضح رہے کہ خلع بھی مالی معاملات کی طرح ایک معاملہ ہے، جس طرح دیگر مالی معاملات معتبر ہونے کے لیے جانبین کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، اسی طرح خلع معتبر ہونے کے لیے بھی زوجین (میاں بیوی) کی رضامندی ضروری ہے، پس جس طرح طلاق دینا شوہر کا حق ہے، اسی طرح بیوی کی جانب سے خلع کے مطالبہ کو قبول کرنا یا نہ کرنا بھی شوہر کا حق ہے، لہذا اگر شوہر کی اجازت اور رضامندی کے بغیر بیوی عدالت سے یک طرفہ طور پر خلع حاصل کرلے، تو ایسا خلع شرعاً ایسا معتبر نہیں ہوتا۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر شوہر نے کسی بھی طرح اپنی رضامندی کا اظہار نہیں کیا، (جیساکہ سوال کے ساتھ جمع کردہ فیصلہ سے معلوم ہوتا ہے)تو عدالت کی جانب سے فیملی لاء 1964 کی دفعہ : 10 کی ذیلی دفعہ: 4 کے تحت جاری کردہ یک طرفہ خلع کے فیصلہ سے شرعاً خلع نہیں ہوگی، نکاح بدستور قائم رہے گا، اور سائل کی بیوی کے لیے کسی اور شخص سے نکاح کرنا جائز نہیں ہوگا، اور سائل اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھنے کا شرعاً حق دار ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وأما ركنه فهو كما في البدائع: إذا كان بعوض الإيجاب والقبول لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول، بخلاف ما إذا قال خالعتك ولم يذكر العوض ونوى الطلاق فإنه يقع وإن لم تقبل لأنه طلاق بلا عوض فلا يفتقر إلى القبول."
(باب الخلع، 442/3، ط: دار الفکر)
بدائع الصنائع میں ہے:
"و أمّا ركنه فهو الإيجاب و القبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلاتقع الفرْقة و لايستحَق العوض بدون القبول."
(کتاب الطلاق،فصل فی الخلع،145/3، ط: دارالکتب العلمية)
المبسوط للسرخسی میں ہے:
"(قال): والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض، فلا معنى لاشتراط حضرة السلطان في هذا العقد."
(کتاب الطلاق، باب الخلع، 173/6، ط: دار المعرفة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144604100782
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن