ایک لڑکی جس کا نکاح ہوچکا ہےاور رخصتی نہیں ہوئی ہےیعنی والدین کے گھر میں ہی ہے ، اور اب شوہر سے طلاق لینا چاہتی ہے، لیکن وہ طلاق دینے سے انکار کرتا ہے،اب لڑکی نےعدالت کے ذریعے خلع لے لی ہے ،اور خاوند اس خلع نامے پر دستخط نہیں کررہا ہے،تو کیا اس خلع سے لڑکی کو طلا ق واقع ہوجاۓ گی؟ اور وہ عدت کے بعد دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے ؟
کسی طرح لڑکے کو راضی کرکے خلع یا طلاق لیں، اس میں عدت بھی نہیں ہے، علاوہ ازیں صورتِ مذکورہ میں چوں کہ شوہر نے خلع کو قبول نہیں کیا ہے، تو ایسے یک طرفہ عدالتی فیصلے کو شرعی خلع قرار نہیں دیا جاسکتا، کیوں کہ شرعی طور پر خلع کے معتبر ہونے کے لیے میاں بیوی دونوں کی رضامندی ضروری ہے، جب کہ مذکورہ صورت میں خلع کا فیصلہ شوہر کی اجازت و رضامندی سے نہیں ہوااور شوہر نے اس خلع کو قبول نہیں کیا ،لہٰذا خلع واقع نہیں ہوا، اور اس کی وجہ سے نکاح ختم نہیں ہو ا ور خاتون کے لیے دوسرانکاح کرنا جائز نہیں ہے ، بلکہ وہ بدستور شوہر کے نکاح میں ہے، نیزعمومی احوال میں شوہر کی اجازت اور وکالت کے بغیر کسی اور کو طلاق دینے کا اختیار بھی نہیں ہوتا ہے۔
اسی طرح یہ بات بھی واضح رہےکہ ایسے عدالتی فیصلے کو تنسیخِ نکاح قرار دینے کے لیے چند شرائط کا پایا جانا ضروری ہے اور وہ شرائط یہ ہیں کہ یا تو شوہر نامرد ہو، یا مجنون ہو، یا مفقود (لاپتا ہو) ہو یا متعنت (ظالم) ہو کہ بیوی کا نان نفقہ نہ دیتا ہو اور ظلم کرتا ہو،ایسی صورت میں عورت اپنے اس دعوی کو شرعی گواہوں کے ذریعے عدالت کے سامنے ثابت بھی کرے، نیز متعلقہ صورت میں سے ہر ایک کی شرائطِ معتبرہ کی رعایت رکھی جائے، سو اگر متعلقہ شرائط پائی گئیں تو عدالت کا فیصلہ شرعاً تنسیخِ نکاح ہوگا اور میاں بیوی میں جدائی ہوجائے گی اور اگر یہ شرائط مکمل نہ ہوں تو ایسے یک طرفہ عدالتی فیصلے کو تنسیخِ نکاح بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔
مسند أحمدمیں ہے :
"حدثنا إسماعيل، حدثنا أيوب، عن أبي قلابة، عمن حدثه، عن ثوبان قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " أيما امرأة سألت زوجها الطلاق من غير بأس فحرام عليها رائحة الجنة."
(کتاب الطلاق،37/ 62 ،ط: الرسالة)
مشکاة المصابیح میں ہے:
"عن أبي ھریرة أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال: المنتزعات والمختلعات ھن المنافقات، رواہ النسائي."
( کتاب النکاح، باب الخلع والطلاق، الفصل الثاني، 283/2، ط: المکتبة الأشرفیة )
فتاوی شامی میں ہے :
"فقالت: خلعت نفسي بكذا، ففي ظاهر الرواية: لايتم الخلع ما لم يقبل بعده."
(کتاب الطلاق،باب الخلع،440/3، سعید)
مبسوط سرخسی میں ہے :
"والخلع جائز عند السلطان وغيره؛ لأنه عقد يعتمد التراضي كسائر العقود، وهو بمنزلة الطلاق بعوض، وللزوج ولاية إيقاع الطلاق، ولها ولاية التزام العوض."
(کتاب الطلاق ، باب الخلع ،173/6، ط: دارالمعرفة)
بدائع الصنائع میں ہے :
"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض فلا تقع الفرقة، ولا يستحق العوض بدون القبول."
(کتاب الطلاق ، فصل في شرائط ركن الطلاق وبعضها يرجع إلى المرأة ،(3/ 145) ط : دارالکتب العلمیة)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144501100328
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن