بندہ کا پکوان کا کاروبار ہے اور مختلف کمپنیوں کو ان کے عملہ کے لئے کھانا ہم بنا کر دیتے ہیں۔ اسی طرح یونیلیور/ والز آئس کریم کی فیکٹری کی جانب سے ہمیں کام کی آفر آئی ہے کہ ہم ان کو کھانا بنا کر بیچیں اور ان کے عملہ کو کھلائیں۔موجودہ فلسطین کی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ان یہودی کمپنیوں کے ساتھ تجارت کا معاملہ کرنا فتویٰ اور تقوی کے لحاظ سے کیسا ہے؟ ہم 3 علماء ہیں، جنہوں نے یہ پکوان کا کام شروع کیا۔ اس بات کو بھی مد نظر رکھتے ہوئے جواب دیجئے گا۔
عام حالات میں کسی غیر مسلم کے ساتھ تجارت کرنافی نفسہ جائز ہے بشرطیکہ مسلمانوں کا دینی ،جانی ومالی لحاظ سے کوئی نقصان نہ ہو اور مسلمانوں کی طاقت وقوت بھی اس سے متاثر نہ ہوتی ہو اور کاروبار میں شرعی اصولوں کالحاظ بھی رکھاجاتاہو۔لہذاموجودہ صورتحال میں چوں کہ یہودی عملی طور پر مسلمانوں کے خلاف برسرپیکار ہیں،اور مسلمانوں کی نسل کشی کے درپے ہیں تو ایسی صورت میں تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ ان کےاشیاء کا بائیکاٹ کریں اورمحض دنیاوی فوائد کے حصول کے خاطر ان کے ساتھ کسی قسم کا کوئی لین دین و کاروبار بالکل نہ کریں۔کیونکہ موجودہ حالات میں ان کے ساتھ کسی قسم کا معاملہ کرنا ان کو مضبوط کرنا اور تقویت بخشناہے،جو کہ ناجائز ہے۔
شرح کتاب السیر الکبیر میں ہے:
"۲۷۲۸ - قال رضى الله تعالى عنه : لا بأس بأن يحمل المسلم و ديار إلى أهل الحرب ما شاء ، إلا الكراع والسلاح والسبي،و ألا يحمل إليهم شيئا أَحَبُّ إِلَى.
لأن المسلم مندوب أن يستبعد من المشركين،قال صلى الله عليه وآله وسلم:" لا تستضيئوا بنار المشركين ". وقال:" أنا برئ من كل مسلم مع مشرك لا تراءى ناراهما ". وفى حمل الأمتعة إليھم للتجارة نوع مقاربة معهم،فالأولى ألا يفعل ولأنھم يتقوون بما يحمل إليھم من متاع أو طعام ، وينتفعون بذلك."
(باب ما یکرہ ادخالہ دارالحرب وما لا یکرہ،ج:4،ص:182،ط:دارالکتب العلمیۃ بیروت لبنان)
بدائع الصنائع میں ہے:
"ولا بأس بحمل الثياب والمتاع والطعام، ونحو ذلك إليهم؛ لانعدام معنى الإمداد، والإعانة، وعلى ذلك جرت العادة من تجار الأعصار، أنهم يدخلون دار الحرب للتجارة من غير ظهور الرد والإنكار عليهم، إلا أن الترك أفضل؛ لأنهم يستخفون بالمسلمين، ويدعونهم إلى ما هم عليه، فكان الكف والإمساك عن الدخول من باب صيانة النفس عن الهوان، والدين عن الزوال، فكان أولى."
( كتاب السير، فصل في بيان ما يعترض من الأسباب المحرمة للقتال، ج:7، ص:102)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"لا بأس بأن يكون بين المسلم والذمي معاملة إذا كان مما لا بد منه كذا في السراجية."
(کتاب الکراہیۃ،الباب الرابع عشر فی أهل الذمۃ والأحكام التی تعود إليهم،ج:5،ص:348،ط:دارالفکر بیروت)
شرح سنن ابی داؤد لابن رسلان میں ہے:
"وكما أنه لا يجوز حمل السلاح إلى أرض العدو، لا يجوز أن يباع العدو شيئا مما يستعينون به في حروبهم من كراع أو سلاح، ولا شيئا مما يرهبون به على المسلمين في قتالهم مثل الرايات وما يلبسون في حروبهم."
(كتاب الجهاد، باب في حمل السلاح إلى أرض العدو، ج:12، ص:121، رقم:2786، ط:دارالفلاح)
فتاوی شامی میں ہے:
"(ويكره) تحريمًا (بيع السلاح من أهل الفتنة إن علم) لأنه إعانة على المعصية (وبيع ما يتخذ منه كالحديد) ونحوه يكره لأهل الحرب (لا) لأهل البغي لعدم تفرغهم لعمله سلاحًا لقرب زوالهم، بخلاف أهل الحرب، زيلعي."
قلت: وأفاد كلامهم أن ما قامت المعصية بعينه يكره بيعه تحريمًا وإلا فتنزيها نهر."
(باب البغاة، ج: 4، ص: 268، ط: سعيد)
فتاوی محمودیہ میں ہے:
"کفار سے دوستانہ تعلق اور دلی محبت حرام ہے ،البتہ دنیوی معاملات میں لین دین وغیرہ بضرورت درست ہے ۔"
(باب الموالات مع الکفاروالفسقۃ،ج:19،ص:546،ط:ادارۃ الفاروق کراچی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144510100711
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن