بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

یہود و نصاری سے دوستی کا حکم


سوال

قران میں یہود و نصاریٰ سے دوستی کی ممانعت ہے. چوں کہ وہ اس دنیا میں رہتےہیں اور پوری دنیا کے انسانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ ہی رہنا ہے ،لہٰذا دنیاوی ضروریات اور امن امان کو قائم رکھنے کے لیے کیا عمومی تعلقات پربھی کوئی قدغن ہے؟

جواب

واضح رہے کہ غیر مسلموں کے ساتھ حُسنِ  اخلاق و نیک برتاؤ  اور ظاہری خوش خُلقی سے پیش آنا درست ہے،  اور اسلامی اخلاق سے متاثر کرکے غیر مسلم کو اسلام کی طرف مائل کرنے کے لیے اسی کی اجازت ہے۔ 

جہاں تک قلبی تعلق اور دلی  دوستی  کی بات ہے تو یہ کسی غیر مسلم کے  لیے رکھنا جائز نہیں ہے، اور دنیاوی ضروریات، امن و امان اور دیگر مصلحتوں کے لیے ان سے ضروری تعلقات قائم رکھنا بھی درست ہے۔

قرآن کریم میں ہے:

لَّا يَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُونَ الْكَافِرِينَ أَوْلِيَاءَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ وَمَن يَفْعَلْ ذَٰلِكَ فَلَيْسَ مِنَ اللَّهِ فِي شَيْءٍ إِلَّا أَن تَتَّقُوا مِنْهُمْ تُقَاةً وَيُحَذِّرُكُمُ اللَّهُ نَفْسَهُ وَإِلَى اللَّهِ الْمَصِيرُ ﴿آل‌عمران: ٢٨﴾

ترجمہ:مسلمانوں کو چاہیے کہ کفار کو (ظاہرا یا باطنا) دوست نہ بناویں مسلمانوں (کی دوستی) سے تجاوز کرکے  ،اور جو شخص ایسا (کام) کرے گا سو وہ شخص اللہ کے ساتھ (دوستی رکھنے کے) کسی شمار میں نہیں مگر ایسی صورت میں کہ تم ان سے کسی قسم کا (قوی) اندیشہ رکھتے ہو، اور اللہ تعالیٰ تم کو اپنی ذات سے ڈراتا ہے اور خدا ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔(28)

اس آیت کے تحت بیان القرآن میں مولانا اشرف علی تھانوی ؒ فرماتے ہیں:

کفار کے ساتھ تین قسم کے معاملے ہوتے ہیں۔1۔موالات یعنی دوستی، 2۔مدارات یعنی ظاہری خوش خلقی، 3۔مواسات یعنی احسان و نفع رسانی۔ ان معاملات میں تفصیل یہ ہے کہ موالات تو کسی حال میں جائز نہیں ہے اور آیت" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا الْيَهُودَ وَالنَّصَارَىٰ أَوْلِيَاءَ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ وَمَن يَتَوَلَّهُم مِّنكُمْ فَإِنَّهُ مِنْهُمْ."  ﴿المائدة: ٥١﴾  اور آیت" يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ ." ﴿الممتحنة: ١﴾میں یہی مراد ہے۔

اور مدارات تین حالتوں میں درست ہے، ایک دفع ضرر کے واسطے، دوسرے اس کافر کی مصلحتِ دینی یعنی توقعِ ہدایت کے واسطے، تیسرے اکرامِ ضیف کے لیے، اور اپنی مصلحت و منفعت مال یا جاہ کے لیے درست نہیں  اور بالخصوص جب کہ ضرر دینی کا بھی خوف ہو تو بدرجہ اولی یہ اختلاط حرام ہوگا،...الی قولہ: اور مواساۃ کا حکم یہ ہے کہ اہلِ حرب کے ساتھ ناجائز ہے اور غیر اہلِ حرب کے ساتھ جائز۔

(سورۃ آل عمران، آیت نمبر:28، ج:1، ص:226-227، ط:رحمانیہ)

تفسیر القرطبی میں ہے:

"فيه مسألتان: الأولى- قال ابن عباس: نهى الله المؤمنين أن يلاطفوا الكفار فيتخذوهم أولياء، ومثله" لا تتخذوا بطانة من  دونكم."

(سورة آل عمران، ج:2، ص:57، ط:دار الكتب المصرية)

و فیہ ایضاً:

"يا أيها الذين آمنوا لا تتخذوا بطانة من دونكم لا يألونكم خبالا ودوا ما عنتم قد بدت البغضاء من أفواههم وما تخفي صدورهم أكبر قد بينا لكم الآيات إن كنتم تعقلون (118)

فيه ست مسائل: الأولى- أكد الله تعالى الزجر عن الركون إلى الكفار. وهو متصل بما سبق من قوله:" إن تطيعوا فريقا من الذين أوتوا الكتاب" [آل عمران: 100]. والبطانة مصدر، يسمى به الواحد والجمع. وبطانة الرجل خاصته الذين يستبطنون أمره، وأصله من البطن الذي هو خلاف الظهر. وبطن فلان بفلان يبطن بطونا وبطانة إذا كان خاصا به. قال الشاعر:

أولئك خلصائي نعم وبطانتي … وهم عيبتي من دون كل قريب

الثانية- نهى الله عز وجل المؤمنين بهذه الآية أن يتخذوا من الكفار واليهود وأهل الأهواء دخلاء وولجاء، يفاوضونهم في الآراء، ويسندون إليهم أمورهم. ويقال: كل من كان على خلاف مذهبك ودينك فلا ينبغي لك أن تحادثه، قال الشاعر:

عن المرء لا تسأل وسل عن قرينه … فكل  قرين بالمقارن يقتدي..."

(سورة آل عمران، ج:2، ص:178، ط:دار الكتب المصرية)

الفتاوی الہندیۃ میں ہے:

"لا بأس بأن يكون بين المسلم والذمي معاملة إذا كان ‌مما ‌لا ‌بد ‌منه كذا في السراجية."

(كتاب الكراهية، الباب الرابع عشر في أهل الذمة و الأحكام التي تعود إليهم، ج:5، ص:348، ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310101510

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں