بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

یہود ونصاری کو جزیرہ عرب سے نکالنے کی وصیت


سوال

 رسول اللہ  صلي الله عليه وسلم    نے  وصال سے پہلے حضرت عمر رضی اللہ کو جزیرۃ العرب سے یہودیوں اور عیسائیوں کے بارے میں کیا فرمایا تھا؟

جواب

حضور اقدس  صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے وصال سے پانچ دن قبل  یعنی جمعرات کے دن حاضرین (جس میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی موجود تھے) کو تین باتوں کی وصیت فرمائی تھی:

(1) مشرکین کو جزیرہ عرب سے نکال دیا جائے۔ (واضح رہے کہ یہاں مشرکین سے مراد عام کفار ہیں خواہ مشرکین ہوں یا اہل کتاب (یہود ونصاریٰ) ، دوسری روایات میں "اخرجوا اليهود والنصارى" بھی ہے، مطلب یہ ہے کہ “جزیرہ عرب” اسلام کا مرکز اور خاص قلعہ ہے،  اس میں صرف اہل اسلام کی آبادی ہونی چاہیے، اہل کفر کو آبادی کی اجازت نہ دی جائے اور جو ابھی تک آباد ہیں ان کو اس علاقہ سے باہر بسا دیا جائے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کے اس حکم اور وصیت کی تعمیل کی سعادت حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے حصہ میں آئی ، انہوں نے اپنے زمانہ خلافت میں اس کی تکمیل فرما دی)۔

(2) دوسری وصیت آپ نے یہ فرمائی تھی کہ حکومتوں یا قبیلوں یا علاقوں کے جو وفود اور قاصد آئیں (اگرچہ وہ غیر مسلم ہوں) ان کے ساتھ حسن سلوک کا ویسا ہی معاملہ کیا جائے جو میرا معمول ہے ۔ـ( آپ صلی اللہ علیہ وسلم  ان کو مناسب تحائف بھی عطا فرماتے تھے ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ حسن سلوک قدرتی طور پر ان کو متاثر کرتا تھا )

(3) تیسری وصیت کے بارے میں حدیث کے ایک راوی سفیان بن عیینہ نے فرمایا کہ اس حدیث کے روایت کرنے والے ہمارے شیخ سلیمان نے یہی دو باتیں بیان کیں اور تیسری بات کے بارے میں کہا کہ یا تو حضرت ابن عباسؓ کے شاگرد سعید بن جبیرؓ نے وہ بیان ہی نہیں کی تھی یا میں بھول گیا ہوں ۔

شارحین نے مختلف قرینوں کی بنیاد پر اس تیسری وصیت کو بھی متعین کرنے کی کوششیں کی ہیں ،  بعض حضرات نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی وہ تیسری وصیت یہ تھی کہ اللہ کی کتاب قرآن کو مضبوطی سے تھامے رہنا ، بعض دوسرے حضرات نے کہا ہے کہ وہ تیسری وصیت یہ تھی کہ"لا تتخذوا قبري وثنا يعبد"  (یعنی ایسا نہ ہو کہ میری قبر کو بت بنا کر اس کی پرستش کی جائے) ۔ 

اس سے متعلق مزید تفصیل کے معارف الحدیث (مولف: مولانا  محمد منظور نعمانی رحمہ اللہ)  جلد 8، ص:155 تا 163، ط: دارالاشاعت،  کا مطالعہ مفید رہے گا۔

صحیح بخاری میں ہے :

"حدثنا ابن عيينة، عن سليمان الأحول، عن سعيد بن جبير، عن ابن عباس رضي الله عنهما: أنه قال: يوم الخميس وما يوم الخميس؟ ثم بكى حتى خضب دمعه الحصباء، فقال: اشتد برسول الله صلى الله عليه وسلم وجعه يوم الخميس، فقال: «ائتوني بكتاب أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده أبدا» ، فتنازعوا، ولا ينبغي عند نبي تنازع، فقالوا: هجر رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «دعوني، فالذي أنا فيه خير مما تدعوني إليه» ، وأوصى عند موته بثلاث: «أخرجوا المشركين من جزيرة العرب، وأجيزوا الوفد بنحو ما كنت أجيزهم»، ونسيت الثالثة، وقال يعقوب بن محمد، سألت المغيرة بن عبد الرحمن، عن جزيرة العرب: فقال مكة، والمدينة، واليمامة، واليمن، وقال يعقوب والعرج أول تهامة."

(باب: هل يستشفع إلى أهل الذمة ومعاملتهم؟4 / 69، ط: دار طوق النجاۃ)

وفیہ أیضاً:

"عن سعيد بن جبير، قال: قال ابن عباس: يوم الخميس، وما يوم الخميس؟ اشتد برسول الله صلى الله عليه وسلم وجعه، فقال: «ائتوني أكتب لكم كتابا لن تضلوا بعده أبدا» ، فتنازعوا ولا ينبغي عند نبي تنازع، فقالوا: ما شأنه، أهجر استفهموه؟ فذهبوا يردون عليه، فقال: «دعوني، فالذي أنا فيه خير مما تدعوني إليه» وأوصاهم بثلاث، قال: «أخرجوا المشركين من جزيرة العرب، وأجيزوا الوفد بنحو ما كنت أجيزهم» وسكت عن الثالثة أو قال فنسيتها ."

 (صحيح البخاري، باب مرض النبي صلى الله عليه وسلم ووفاته۔ (6 / 9)دار طوق النجاۃ)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144409101318

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں