بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہھودی،عیسائی عورت سے نکاح کرنا


سوال

میں گزشتہ 12 سال سے یورپ میں مقیم ہوں۔ والدین عرصۂ دراز سے اس دار فانی سے کوچ فرما گئے۔ بہن بھائی میں سب سے چھوٹا ہوں مگر کوئی بھی رشتہ کروانے کو مدد نہیں کرتا۔ مسلم خاندان مجھے رشتہ نہیں دیتے کیونکہ کوئی ذمہ داری نہیں لیتا۔ کیا میرا کسی عیسائی یا یہودی سے نکاح جائز ہے؟

جواب

واضح رہے  کہ نکاح کے لیے کوئی مسلمان خاندان تلاش کرکے مسلمان عورت سے ہی نکاح کیا جائے اور اس میں دیگر بھائی بہنوں  کو اپنے چھوٹے بھائی کی مدد کرنی چاہیے، تاہم اگرنکاح  کے لیے کوئی مسلمان خاندان تلاش کے باوجود نہیں مل رہا یا کوئی رشتہ نہیں دے رہا  تو گناہ سے بچنے کے لئے کسی اہل کتاب عورت سے  نکاح کرنا دو شرطوں کے ساتھ جائز ہوگا۔

۱۔وہ  صرف نام کی عیسائی/یہودی اور درحقیقت لامذہب دہریہ نہ ہو،بلکہ اپنے مذہبی اصول کوکم ازکم مانتی ہو، یعنی اپنے نبی پر ایمان رکھتی ہو اور اس پر نازل ہونے والی کتاب پر بھی ایمان رکھتی ہو، اگرچہ عمل میں خلاف بھی کرتی ہو۔

۲۔  وہ اصل ہی یہودیہ نصرانیہ ہو، اسلام سے مرتدہوکر یہودیت یا نصرانیت اختیار نہ کی ہو۔

جب یہ دو شرطیں کسی کتابیہ عورت میں پائی جائیں  تو اس سے نکاح صحیح و منعقد ہوجاتا ہے، لیکن بلاضرورتِ شدیدہ اس سے نکاح کرنا مکروہ اور بہت سے مفاسد پر مشتمل ہے۔

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(وصح نكاح كتابية)، وإن كره تنزيهاً (مؤمنة بنبي) مرسل (مقرة بكتاب) منزل، وإن اعتقدوا المسيح إلهاً."

"(قوله: مقرة بكتاب) في النهر عن الزيلعي: واعلم أن من اعتقد ديناً سماوياً وله كتاب منزل كصحف إبراهيم وشيث وزبور داود فهو من أهل الكتاب؛ فتجوز مناكحتهم وأكل ذبائحهم. (قوله: على المذهب) أي خلافاً لما في المستصفى من تقييد الحل بأن لايعتقدوا ذلك، ويوافقه ما في مبسوط شيخ الإسلام: يجب أن لايأكلوا ذبائح أهل الكتاب إذا اعتقدوا أن المسيح إله، وأن عزيراً إله، ولايتزوجوا نساءهم، قيل: وعليه الفتوى، ولكن بالنظر إلى الدليل ينبغي أنه يجوز الأكل والتزوج. اهـ.
قال في البحر: وحاصله أن المذهب الإطلاق لما ذكره شمس الأئمة في المبسوط من أن ذبيحة النصراني حلال مطلقاً سواء قال بثالث ثلاثة أو لا؛ لإطلاق الكتاب هنا، والدليل ورجحه في فتح القدير بأن القائل بذلك طائفتان من اليهود والنصارى انقرضوا لا كلهم مع أن مطلق لفظ الشرك إذا ذكر في لسان الشرع لاينصرف إلى أهل الكتاب، وإن صح لغةً في طائفة أو طوائف؛ لما عهد من إرادته به من عبد مع الله تعالى غيره ممن لايدعي اتباع نبي وكتاب إلى آخر ما ذكره. اهـ."   

(كتاب النكاح ،ج3،ص45،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100562

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں