بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

3 جمادى الاخرى 1446ھ 06 دسمبر 2024 ء

دارالافتاء

 

یہودیوں کا ذبیحہ کھانا کیسا ہے؟


سوال

یہودیوں کا ذبیحہ کھانا کیسا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر یہود ی اپنے مذہب کے اصول اور پیغمبر اور کتب سماویہ کو مانتے ہیں،دہریہ، سائنس پرست اور نجوم پرست نہیں ہیں، اور جانور کو اللہ کا نام لے کر ذبح کرتے ہیں، ذبح کے وقت اللہ کے علاوہ کسی اور کا نام نہیں لیتے تو ایسے یہود یوں کا ذبیحہ حلال ہے اور اس کا گوشت کھانا جائز ہے،اور اگر ذبح کرتے وقت غیر اللہ کا نام لیتے ہیں ،تو ان کا ذبیحہ حرام ہے، اور مسلمانوں کے لیے ایسے ذبیحہ کا گوشت کھانا جائز نہیں ہے۔

تاہم موجودہ  دور کے اکثر یہودی ملحد،بد دین،  دہریہ، سائنس پرست اور نجوم پرست ہیں، صرف نام کے اہلِ کتاب ہیں، ان کو مذہب سے بالکل لگاؤ نہیں، بلکہ ان کے اقوال وافعال سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مذہب سے بے زار ہیں، تو ایسے یہودیوں کو "اہلِ کتاب" کہنا صحیح نہیں اور ان کا ذبیحہ بھی حلال نہیں؛ اس لیے حلال اور غیر مشتبہ چیز کو چھوڑ کر مشتبہ چیز اختیار نہ کی جائے اور ان کے ذبیحہ سے مکمل  طور پر احتراز کیا جائے۔

 قرآن کریم میں ہے:

"وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ."(سورۃ المائدہ:آیت:5)

ترجمہ:”جو(جن لوگوں کو) لوگ کتاب دئیے گئے ہیں ان کا ذبیحہ تم کو حلال ہے اور تمھارا ذبیحہ ان کو حلال ہے۔“ (بیان القرآن)

صحیح بخاری میں ہے:

"باب: ذبائح أهل الكتاب وشحومها، من أهل الحرب وغيرهم."

"وقوله تعالى: {اليوم أحل لكم الطيبات وطعام الذين أوتوا الكتاب حل لكم وطعامكم حل لهم} /المائدة: 5/.

وقال الزهري: لا بأس بذبيحة نصارى العرب، وإن سمعته يسمي لغير الله فلا تأكل، وإن لم تسمعه فقد أحله الله لك وعلم كفرهم. ويذكر عن علي نحوه.....

وقال ابن عباس: طعامهم: ذبائحهم.

حدثنا أبو الوليد: حدثنا شعبة، عن حميد بن هلال، عن عبد الله بن مغفل رضي الله عنه قال:كنا محاصرين قصر خيبر، فرمى إنسان بجراب فيه شحم، فنزوت لآخذه، فالتفت فإذا النبي صلى الله عليه وسلم فاستحييت منه."

(كتاب الذبائح، والصيد،باب: ذبائح أهل الكتاب وشحومها، من أهل الحرب وغيرهم،2097/5، ط:دار ابن كثير، دار اليمامة)

عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری میں ہے:

"«قوله عز وجل: {وطعام الذين أوتوا الكتاب} ذبائحهم، وبه قال ابن عباس وأبو أمامة ومجاهد وسعيد بن جبير وعكرمة وعطاء والحسن ومكحول وإبراهيم النخعي والسدي، ومقاتل بن حيان، وهذا أمر مجمع عليه بين العلماء أن ذبائحهم حلال للمسلمين لأنهم يعتقدون تحريم الذبح لغير الله تعالى ولا يذكرون على ذبائحهم إلا اسم الله وإن اعتقدوا فيه ما هو منزه عنه، ولا تباح ذبائح من عداهم من أهل الشرك ومن شابههم لأنهم  لا يذكرون اسم الله على ذبائحهم وقرابينهم، وهم لا يتعبدون بذلك ولا يتوقفون فيما يأكلونه من اللحم على ذكاة، بل يأكلون الميتة بخلاف أهل الكتاب ومن شاكلهم من السامرة والصابئة ومن تمسك بدين إبراهيم وشيث وغيرهما من الأنبياء عليهم السلام، على أحد قولي العلماء ونصارى العرب كبني تغلب وتنوخ وبهزام وجذام ولخم وعاملة ومن أشبههم لا تؤكل ذبائحهم عند الجمهور.

.......................

{ونذكر عن علي نحوه}ذكره بصيغة التمريض إشارة إلى ضعفه أي: ويذكر عن علي بن أبي طالب نحو: ما روى عن الزهري، وجاء عن علي رضي الله تعالى عنه، من وجه صحيح المنع من ذبائح بعض نصارى العرب أخرجه الشافعي وعبد الرزاق بأسانيد صحيحة عن محمد بن سيرين عن عبيدة السلماني عن علي، رضي الله تعالى عنه، لا تأكلوا ذبائح نصارى بني تغلب فإنهم لم يتمسكوا من دينهم إلا بشرب الخمر."

(كتاب الذبائح والصيد،باب: ذبائح أهل الكتاب وشحومها، من أهل الحرب وغيرهم،118/21، ط:دار إحياء التراث العربي)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603102756

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں