1کیا "یا بدوح" تعویذ وغیرہ میں استعمال کرنا درست ہے ؟ اور اس کے صحیح اعراب اور معنی کیا ہیں ؟
2۔ "بدوح"کے بارے میں جو بعض اہلِ علم کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ یہ عبرانی زبان میں اللہ تعالیٰ کا نام ہے،تو ان اہلِ علم کے اس بات کا اصل ماخذ کیا ہے؟ انہوں نے یہودی علماء سے یہ خود سنا ہے ؟ یا انہوں نے یہودی یا قدیم کتب سے یہ بات لی ہے؟ کیوں کہ ایک مفتی صاحب نے کئی یہودی علماء سے "بدوح" کے بارے میں استفسار کیا پران کو اس کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھی جس کی وجہ سے"بدوح" کے اللہ تعالیٰ کے نام ہونے کا دعویٰ مشکوک نظر آ رہا ہے۔
3۔ "یا بدوح" تعویذ وغیرہ میں استعمال کرنے کے بارے میں حکیم الامتؒ کا موقف کیا تھا؟ کیوں کہ امداد الفتاویٰ(4/89) میں ہےکہ:
"سوال: یا بدوح کے متعلق بعض سریانی زبان میں باری تعالیٰ کا نام بتلاتے ہیں اور بعض موٴکل کا نام کہتے ہیں اور یا کے ساتھ پڑھنے کو بھی منع کرتے ہیں اس کی جو تحقیق حضرت کو ہو ،اس سے مطلع فرمایا جاوے؟
الجواب: مجھ کو کچھ تحقیق نہیں، اور بدون تحقیق اس کے پڑھنے کو جائز نہیں سمجھتا ۔ "
نیز مکتوبات و بیاضِ یعقوبی(ص225) میں حکیم الامتؒ نے حاشیہ میں تحریر فرمایا ہےکہ:
"قوله:ها هو هي،اس کے معنی معلوم نہیں ہوئے ، جس کو معلوم نہ ہو وہ اس کو نہ پڑھے،اسی طرح یا بدوح،ممکن ہے کہ مولانا کو معلوم ہو."جب کہ بیاض اشرفی/الطرائف والظرائف (ص243) میں ایک تعویذ درج ہے جس میں"یابدوح" استعمال ہوا ہے۔
1-’’بدوح‘‘ (بفتح الباء وتخفیف الدال) عبرانی زبان میں اللہ تعالیٰ کا نام ہے،پس جب یہ اللہ کانام ہونا ثابت ہے، لہذا تعویذات وغیرہ میں اس کا استعمال کرنا جائز ہے۔
امداد المفتیین میں ہے:
"سوال:یا بدوح کےکیا معنی ہیں اور اس کا ورد کرنا کیسا ہے؟
(الجواب)بدوح یہ لفظ عام طور پر بضم باء وتشدید دال مشہور ہے،مگر یہ صحیح نہیں ، صحیح لفظ بدوح ہےبفتح باء وتخفیف دال،تحقیق یہ ہےکہ یہ عربی زبان کا لفظ نہیں،بلکہ عبرانی میں اللہ تعالی کا نام ہے،اور اگر عربی قرار دیا جائے تو اس کے معنی عاجز کرنے والے کے ہیں ،بہر حال خدا کا نام ہونا ثابت ہےتو یا بدوح کا وظیفہ بے تامل جائز ہے۔"
وفی الحاشیۃ:
"ھکذا أفادہ شیخنا مولانا محمد أنورشاہ الکشمیری قدس سرہ"
(کتاب الذکر والدعاوالتعویذات ،215/2،ط:دارالاشاعت)
2-لفظ "بدوح" سے متعلق اب تک مختلف تحقیقات سامنے آچکی ہیں ،کچھ لوگ تو اس کو بالکل عبرانی زبان کا لفط نہیں مانتے،لیکن کئی اہل علم نےاس کو عبرانی زبان میں اللہ کا نام قراردیا ہے،حضرت مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ نے امدا د المفتیین میں"یا بدوح "سے متعلق ایک سوال کے جواب میں اس کو عبرانی زبان میں اللہ کانام حضرت علامہ انور شاہ کشمیریؒ کے حوالہ سےبتایا ہے،اسی طرح یہ لفظ حضرت امام غزالی رحمہ اللہ نے بھی اپنے کتاب" الاسرار المخزونۃ فی الطب الروحانی" میں لکھا ہے:
"وھي ھذہ الأسماء بدوح 7 مرات عطفت قلب و فواد و عقل وسمع وبصر وجمیع جوارح وجسد وروح"
( باب محبة وعطف ،ص،39،ط:مؤسسة النور للمطبوعات)
ان حضرا ت کے علم اور گہری مطالعہ سے یہ بات بعید معلوم ہوتی ہے کہ"بدوح" ایک بے اصل اور ایک برے معنی پر مشتمل لفظ ہو ،لہذا یہ لفظ عبرانی زبان میں اللہ تعالی کا نام ہی ہے،اور اس کا ماخذ بظاہر عبرانی زبان کی قدیم کتب ہیں،اور جہاں تک صورتِ مسئولہ میں ایک مفتی کے فتوی کے حوالے سے کئی یہودیوں کا اس لفظ کو عبرانی زبان میں اللہ کا نام تسلیم نہ کرنے کی بات ہے،تو اس تحقیق پر کلی اعتماد اس وجہ سےنہیں کر سکتے ،کیوں کہ زمانہ کے گزرتے ہوئے ہر زبان میں تغیر کا واقع ہونا ایک مسلم حقیقت ہے،پس یہ بات بعید نہیں کہ قدیم عبرانی کتب میں لفظ "بدوح " کااستعمال اللہ تعالی کے نام كے طور پر تھا،اور موجودہ عبرانی زبان میں یہ ان کےلیے ایک اجنبی لفظ ہو۔
3- لفظ"یا بدوح "کے متعلق حضرت حکیم الامت کا موقف مختلف رہا ہے،" حاشیہ بیاض یعقوبی" اور" امداد الفتاوی" میں حضرت نے اس لفظ کے بارے میں لاعلمی کا اظہار فرمایا ہے،جب کہ" بیاض اشرفی" میں حضرت نے خود یہ لفظ ایک تعویذ میں لکھا ہے، اوربیاض اشرفی کا سن تالیف 1316ھ ہے۔
"وقد شرعت فيه لمنتصف ذي الحجة الحرام سنة1316من هجرةخير الأنام."
(بیاض اشرفی،دیباچہ،5،ط:مکتبہ تالیفات اشرفیہ)
اور بیاض یعقو بی پر حضرت نے حاشیہ سن1344ھ میں لکھا ہے۔
"ان مکاتیب سابقہ في الطبع کے متعلق جمع کے وقت ہی سے خیال تھا ،کہ بعض بعض مقامات حل طلب کا تحشیہ کیا جاوے،مگر اتفاقات مانعہ کے سبب توقف ہوتا رہا،بحمداللہ تعالی اب نصف صفر سن 1344ھ کو اس تحشیه کا سلسلہ شروع ہوا."
(مکتوبا ت و بیاض یعقوبی،فاتحۃ الحواشی مع تمہید حصہ دوم،ص:30، ط: دارالاشاعت)
لہذا بظاہرحضرت کا آخری موقف بیاض یعقوبی والا ہی معلوم ہورہا ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"ولا بأس بالمعاذات إذا كتب فيها القرآن، أو أسماء الله تعالی"
(کتاب الحظر والإباحة، فصل في اللبس، 363/6، ط:ایچ ایم سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144508101806
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن