بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

یا علی کہنا / التحیات کی جگہ سورہ فاتحہ پڑھنا


سوال

1-   غلط عقیدہ رکھے بغیر یا علی کہنا یا نظموں میں سننا کیسا ہے؟

2-  نماز میں التحیات  کی جگہ غلطی سے اگر  ’’الحمد‘‘   پڑھی جائے تو کیا کرنا چاہیے؟

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں اگر اس سے مقصود حضرت علی رضی اللہ عنہ کو پکار کر ان سے استغاثہ ہو  اور یہ اعتقاد ہو کہ ان کے پاس ہر قسم کے اختیارات ہیں، جو چاہیں جس کی چاہیں مدد کرسکتے ہیں تو  یہ  کفر اور شرک ہے۔ اگر یہ اعتقاد نہ ہو  تب  بھی یہ موہمِ شرک ضرور ہے،  نیز اللہ تعالیٰ کو  اس کی صفتِ علی سے پکارنا مقصود ہو تو  بعینہ ان الفاظ  (یاعلی مدد) سے نہ پکارا جائے؛ اس لیے  کہ  "یاعلی مدد" ایک خاص نظریے اور عقیدے کی علامت بن گیا ہے، اس لیے یہ کہنا درست نہیں ہے۔

"إن الناس قد أكثروا من دعاء غیر الله تعالى من الأولیاء الأحیاء منهم والأموات وغیرهم مثل: یا سیدي فلان أغثني و لیس ذلك من التوسل المباح في شيء، واللائق بحال المؤمن عدم التفوه بذلك وأن لا يحوم حول حماه، وقدعده أناس من العلماء شركًا․"

(روح المعاني، سورة المائدة، الاية:35، 298/3، دارالكتب العلمية)

2۔ قعدہ  میں التحیات پڑھنی واجب ہے، اگر کوئی قعدہ  میں  التحیات کی جگہ غلطی  سے  سورۃ  الفاتحہ  پڑھ  لے تو  واجب کو ترک کرنے کی بنا پر سجدہ سہو لازم ہوگا۔

الدر المختار میں ہے:

"(والتشهدان) ويسجد للسهو بترك بعضه ككله وكذا في كل قعدة في الأصح إذ قد يتكرر عشرا... وفی الرد:(قوله والتشهدان) أي تشهد القعدة الأولى وتشهد الأخيرة."

(الدر المختار مع ردا لمحتار،کتاب الصلوٰۃ، باب صفۃ الصلوٰۃ، واجبات الصلوٰۃ،466/1، سعید)

غنیۃ المستملی میں ہے:

"و لو کرر الفاتحہ فی رکعۃ من الاولین متوالیا، او قرأ القرآن فی رکوعہ، او فی سجودہ، او فی موضع التشھد، یجب علیہ سجود السھو، للزوم تأخیر الواجب."

(ص: 460، ط:سھیل اکیڈمی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144310100626

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں