بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شوہر نے اپنا گھرمکمل طورپر اپنی بیوی کے نام کروا دیا


سوال

والد صاحب کا ایک گھر اورنگی ٹاؤن میں تھا، جس کی تعمیر میں والد صاحب کے پیسوں کے علاوہ والدہ کا زیور اور نقد رقم بھی لگی ،جو والدہ ماجدہ کو اُن کے گھر والے اکثر اوقات والدہ کی مدد کے لیے دیا کرتے تھے، والد صاحب نے اپنی ریٹائرمنٹ کے پیسوں سے ایک زمین کسی ہاؤسنگ سوسائٹی میں اپنے بیٹے کے نام پر خرید لی، پھر کچھ عرصہ بعد والد صاحب نے اپنا وہ گھر جس میں والدہ کے پیسے بھی شامل تھے جو اورنگی ٹاون میں تھا بیچ کر اور وہ زمین جو بیٹے کے نام پر لی تھی دونوں بیچ کر ان کے پیسوں  کا ایک بنا بنایا گھر والدہ کے نام پر خرید لیا ،اور اس نئے گھر میں آ نے سے پہلے ہی والدہ کو گھر کا مالک بنا دیا، اور  بحالتِ صحت اور خوشی یہ سارے معاملات والدہ ماجدہ کے سپرد کر دیے، اور کافی بار اس بات کا اظہار بھی کیا کے بہت اچھا ہوا کہ یہ گھر والدہ کے نام ہوگیا ، والدہ ماجدہ والد صاحب کے سامنے اِس گھر میں تصرّف بھی کرتی رہتی تھیں ،اِس گھر میں رہتے ہوئے والد صاحب کو 8 سال کا عرصہ گزرا، پھر والد صاحب کی کینسر کے مرض سے اِس دُنیا سے رخصت ہو گئے،اب اس مسئلے کی وضاحت چاہیے کے یہ گھر جس میں والدہ اب بھی رہتی ہیں وہ والد صاحب کی میراث ہے یا والدہ ماجدہ کی ملکیت ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں  والدنے اپنا گھرآپ کی والدہ  کو مکمل قبضہ و تصرف کے ساتھ دے کر نام کروا یا تھا ،تو یہ گھرآپ کی والدہ  ملکیت ہو گیا ہے ،یہ گھر مرحوم والد کی میراث نہیں ۔

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"وتصح في محوز مفرغ عن أملاك الواهب وحقوقه ومشاع لا يقسم ولا يبقى منتفعا به بعد القسمة من جنس الانتفاع الذي كان قبل القسمة كالبيت الصغير والحمام الصغير ولا تصح في مشاع يقسم ويبقى منتفعا به قبل القسمة وبعدها، هكذا في الكافي".

(كتاب الهبة،الباب الثاني فيما يجوز من الهبة وما لا يجوز،ج:4، ص:376، ط:دارالفكر.)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"ولایتمّ حکم الھبة الّا مقبوضة و یستوی فیه الأجنبی و الولد اذا کان بالغا ،ھٰکذا فی محیط البرھانی."

( کتاب الھبة، الباب الثانی فیما یجوزمن الھبة و فیما لا یجوز، ج:4، ص:377، ط: رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503103031

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں