میری بہن کی شادی ہوئی، ایک ماہ بعد میاں بیوی میں اختلاف ہوا، جس کی وجہ سے شوہر نے زبانی بیوی کو کہا ”میں تمہیں طلاق دیتا ہوں“ یہ جملہ تین دفعہ کہا، طلاق کے بعد عدت کے لیے بھی شوہر نے اس کو اپنے گھر میں رہنے نہیں دیا اور نکال دیا، تو بہن نے اپنے میکے میں عدت گزاری، اور اپنا سارا سامان لے کر ہمارے گھر آگئی لیکن لڑکے نے تحریری طور پر طلاق نامہ لکھ کر نہیں دیا، اب اس واقعہ کو دو سال ہوگئے ہے، میری بہن کا رشتہ آیا ہے، اب ہم وہ پہلے شوہر سے طلاق نامہ مانگ رہے ہیں لیکن وہ نہیں دے رہا، اور کہہ رہا رہے میں طلاق دے چکا ہوں، اب سوال یہ ہے کہ طلاق نامہ کے بغیر دوسری جگہ نکاح کرسکتے ہیں یا نہیں؟ رہ نمائی فرمائیں۔
صورتِ مسئولہ میں سائلہ کا بیان اگر واقعۃً صحیح ہے کہ سائلہ کی بہن کو اس کے شوہر نے تین دفعہ ان الفاظ کے ساتھ کہ : ”میں تمہیں طلاق دیتا ہوں“تینوں طلاقیں دے دی ہیں تو اس سے اس کی بہن پر تینوں طلاقیں واقع ہوگئیں، بیوی اپنے شوہر پر حرمتِ مغلّظہ کے ساتھ حرام ہوگئی، اب رجوع جائز نہیں اور دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا ، سائلہ کی بہن کی عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہیں تھا، اگر حمل تھا تو بچہ کی پیدائش تک) اگر گزرگئی ہے تو شرعاً اس کا دوسری جگہ نکاح کرنا جائز ہے تاہم بہتر یہ ہے کہ دوسری جگہ نکاح سے پہلے شوہر سے تحریری طلاق نامہ وصول کرلیا جائے؛ تاکہ بعد میں قانونی پیچیدگی سے محفوظ رہا جائے، اگر شوہر تحریری طلاق نامہ نہیں دے تو شوہر کی خاندانی ادارہ سے طلاق کا سرٹیفکٹ حاصل کرلیا جائے۔
قرآن مجید میں ہے:
﴿الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ﴾ [البقرة: 229]
ترجمہ: ”وہ طلاق دو مرتبہ ( کی ) ہے پھر خواہ رکھ لینا قاعدہ کے موافق خواہ چھوڑ دینا خوش عنوانی کے ساتھ ۔“ (بیان القرآن)
فتاوی عالمگیری میں ہے:
"يقع طلاق كل زوج إذا كان بالغا عاقلا سواء كان حرا أو عبدا طائعا أو مكرها كذا في الجوهرة النيرة".
(كتاب الطلاق، الباب الاول، ج: 1، ص: 387، ط: دار الكتب العلمية)
وفیہ ایضا:
"وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية".
(كتاب الطلاق، باب في الرجعة، ج: 1، ص: 506، ط: دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603100662
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن