میرے والدہ کا انتقال 17 /01/17کو ہوگیا ہے انتقال کے تیسرے دن میری بہن نے وصیت دکھائی جو میری والدہ نے دو بہنوں کی موجودگی میں ایک بہن سے لکھوائی اور والدہ نے دستخط بھی کردیا یہی وصیت کی کاپی ساتھ دے رہاہوں اور اس وصیت کا علم دونوں بہنوں کو تھا اور باقی ورثاء کو نہیں تھا ہم پانچ بہن بھائی ہیں ورثاء یہ ہیں : محمد انیس عثمان ، محمد سعد اقبال ، امبر محمد اقبال ارم عثمان ، مدیحہ اقبال ، شوہر محمد اقبال ۔ میں محمد انیس عثمان اور بہن مدیحہ پہلے شوہر سےہیں اور ایک بھائی اور دو بہنیں دوسرے شوہر سے ہیں دوسرے شوہر جو میرے چچابھی ہے وہ حیات ہیں اب تھوڑاساسونا بچاہو ہے اس کو کس طرح تقسیم کریں اور وصیت کے حساب سے سونا تقسیم کرنا صحیح ہے کہ نہیں ۔
امی کی وصیت :
دوکڑے ہیرے والے ہیں وہ ایک امبراور ایک ارم کا ہے دوکڑے اور ہیں سادے والے ہیں ایک مدیحہ کا ایک انیس کا ہے جو ایک بریسلیٹ ہے وہ بیٹیوں کی ہیں گھر سعد کا ہے اور سعد جب گھر بیچے گا تو اس گھر میں سب بہن بھائیوں کو حصہ دینا پڑے گا ، یہ امی کی وصیت ہے ۔
واضح رہے کہ ہر وارث کا حصہ شریعت نے مقرر کردیاہے لہذا وارث کے حق میں کی گئی وصیت شرعا معتبراور نافذالعمل نہیں ہوتی ، الا یہ کہ وارث کے لیے کی گئی وصیت پر عمل کرنے پر تمام ورثاء راضی ہوں اور تمام ورثاء عاقل بالغ بھی ہوں ۔
صورت مسئولہ میں سائل کی والدہ نے جن بیٹیوں اور بیٹو ں کے نام وصیت کی ہے یہ وصیت شرعامعتبر نہیں ہے ، ہاں اگر مرحومہ والدہ کے دیگر تمام عاقل بالغ ورثاء بیٹوں اور بیٹیوں کے حق میں کی گئی اس وصیت پر راضی ہوں تو اس وصیت پر عمل کرنا جائز ہوگا ۔ وگرنہ وہ صرف اپنے شرعی حصے کے حقدار ہوں گے ۔
مرحومہ کے ترکے کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اگر مرحومہ کے ذمہ کوئی قرض ہو تو اسے کل ترکہ سے ادا کرنے کے بعداور اگر مرحومہ نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو اسے باقی ترکہ کے ایک تہائی میں سے نافذ کرنے کے بعدباقی کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو 28حصوں میں تقسیم کرکے مرحومہ کی کوشوہر کو7حصے، مرحومہ کے ہر ایک بیٹے کو 6،6حصےاورمرحومہ کے ہر ایک بیٹی کو3،3حصے ملیں گے ، نیز مرحومہ کی تجہیز وتکفین کا خرچہ اس کے شوہر کے ذمے ہے ۔
صورت تقسیم یہ ہے :
28/4
میتـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
شوہر | بیٹا | بیٹا | بیٹی | بیٹی | بیٹی |
1 | 3 | ||||
7 | 6 | 6 | 3 | 3 | 3 |
یعنی 100روپے میں سے مرحومہ کےشوہر کو25روپے، مرحومہ کے ہر ایک بیٹے کو21.428 روپے ،اور اس کی ہر بیٹی کو10.714روپے ملیں گے ۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
ثم تصح الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة، كذا في التبيين ولا تجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية.
وفیہ ایضا :
ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة.
(کتاب الوصایا،ج:۶،ص:۹۰،ط:دار الفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144303100134
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن