بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

شیمپو کے ساتھ ،بالوں کو ڈائی بھی کرنے کاحکم


سوال

آج کل مارکیٹ میں کچھ "شیمپو " ایسے آئے ہیں، جو شیمپو کے ساتھ ،بالوں کو ڈائی بھی کرتے ہیں،کیا ان کا استعمال جائز ہے ؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ شیمپو  کے اجزاء ترکیبی میں اگر  حرام یا ناپاک اشیاء شامل ہونےکا یقین یا ظنِ غالب نہ ہو،تواس شیمپو کو بالوں کی صفائی کے لیے استعمال کرنا یااس  کے ذریعہ بالوں کو رنگنا جائز ہے،البتہ خالص کالے رنگ سے رنگنا یا ایسے شیمپو کا استعمال کرنا جس سے بال کالے ہوجائیں جائز نہیں ہے؛کیوں کہ  احادیثِ مبارکہ میں  بلا ضرورتِ شرعی کے بالوں پر کالا خضاب لگانے کی ممانعت اور سخت وعیدآئی ہے،صرف حالتِ جہاد میں دشمن کو مرعوب رکھنے اور اس کے سامنے  طاقت کے اظہار کے لیے کالا خضاب استعمال کرنے کی  اجازت دی گئی ہے۔ اسی طرح اگر شیمپو سے بال اس طرح ڈائی ہوتے ہیں کہ ان پر ایک تہہ چڑھ جاتی ہے جو بالوں تک پانی کے رسائی میں رکاوٹ بنتی ہے تو پھر وضو اور غسل نہ ہونے کی وجہ سے اس کا استعمال جائز نہ ہوگا۔

الاشباۃ والنظائر میں ہے:

"‌اليقين ‌لا ‌يزول بالشك."

(القاعدة الفقهية، سادسا، ج:1، ص:29، ط:دارابن قيم)

تکملہ فتح الملہم میں ہے:

"وبهذا يتبين حكم الكحول المسكرة (Al Cohals) التي عمت بها البلوى اليوم، فإنها تستعمل في كثير من الأدوية والعطور والمركبات الأخرى، فإنها إن اتخذت من العنب أو التمر فلا سبيل إلى حلتها أو طهارتها، وإن اتخذت من غيرهما فالأمر فيها سهل على مذهب أبي حنيفة رحمه الله تعالى، ولا يحرم استـعـمـالـه مـركبـة مـع المواد الأخرى ولا يحكم بنجاستها أخذاً بقول أبي حنيفة رحمه الله . وإن معظم الـكـحـول التـي تـسـتـعـمـل الـيـوم في الأدوية والعطور وغيرها لاتتخذ من العنب أو التمر، إنما تتخذ من الـحـبـوب أو القشور أو البترول وغيره، كما ذكرنا في باب بيع الخمر من كتاب البيوع، وحينئذ هناك فسحة فـي الأخـذ بقول أبي حنيفة عند عموم البلوى، والله سبحانه أعلم."

( كتاب الأشربة، باب تحريم الخمر،ج:3، ص:208، ط:مکتبه دارالعلوم کراچی)

المحیط للبرہانی میں ہے:

"اعلم بأن الزينة نوعان: نوع يرجع إلى البدن، ونوع يرجع إلى غيره، نبدأ بالذي يرجع إلى البدن، فنقول اتفق المشايخ أن الخضاب في حق الرجال بالحمرة سنة، وأنه من سير المسلمين وعلاماتهم، والأصل فيه قوله عليه السلام: «غيروا الشيب ولا تشبهوا باليهود» وقال الراوي: رأيت أبا بكر على منبر رسول الله عليه السلام ولحيته كأنها صرام عرفج، والعرفج اسم لبنت في البادية هي أشد حمرة من النار.

وأما ‌الخضاب ‌بالسواد: فمن فعل ذلك من الغزاة ليكون أهيب في عين العدو فهو محمود منه، اتفق عليه المشايخ، ومن فعل ذلك ليزين نفسه للنساء، وليحبب نفسه إليهن فذلك مكروه عليه عامة المشايخ. وبنحوه ورد الأثر عن عمر رضي الله عنه، وبعضهم جوزوا ذلك من غير كراهية، روي عن أبي يوسف أنه قال: كما يعجبني أن تتزين لي يعجبها أن أتزين لها."

(كتاب الإستحسان والكراهية، ‌‌الفصل الحادي والعشرون في الزينة، ج:5، ص:377، ط:دارالكتب الإسلامية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144503102179

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں