میری شادی جھوٹ اور دھوکے کی بنیاد پر2018ء میں ہوئی،محبت کے جال میں پھنساکر شادی کے پہلے ہی دن ان لوگوں کی اصلیت کھل گئی،میرے جو شوہر تھے ،شادی کے دوسال بعد بھی وہ میرے سامنے لڑکیوں سے فون پر باتیں کرتا تھا،اس کو نہ میرے کھانے پینے کی فکرتھی،نہ دیگر ضروریات کی،میں اپنی ضروریات کے لیے جاب کرتی تھیں،یہ میری سیلری کے وقت مجھ سے پیسے لیتا تھا کہ میں آپ کو واپس دے دوں گا،جب کہ اس کی خود کی سیلری ہوتی تھی اوراس سے یہ مجھے خرچہ نہیں دیتا تھا،بات بات پر طلاق کی دھمکی دیتا تھا،دوسال تک اس کی دوسری عورت کے ساتھ تعلقات تھے ،اس کا جب مجھے معلوم ہواتو میں نے اس کو روکنے کی کوشش کی تو اس نے مجھے دھمکی دی کہ میں تمہیں طلاق دے دوں گا،ساڑھے تین سال تک اس نے مجھے میرے خاندان والوں سے ملنے نہیں دیا اور یہ قسم کھائی تھی کہ’’ تم اپنے خاندان سے جس دن ملوں گی ،اس دن ہماری ایک طلاق ہوجائے گی‘‘،پھر کچھ عرصے بعد اس نے مجھے خود میرے خاندان والوں کے پاس بھیجااوریہ بھی واضح کردیا کہ ہماری ایک طلاق ہوچکی ہے،ابھی میں آٹھ مہینے سے اپنے ماں باپ کے گھر میں ہوں ، آٹھ مہینے ہوچکے ہیں ،درمیان میں کوئی رجوع بھی نہیں ہوا ہے،اب آپ بتائیں کہ میری عدت ہوگئی ہے یا نہیں؟طلاق دینے کے بعد آٹھ مہینے سے میں ماں باپ کے گھر میں ہواورمیرے تین ماہورایاں بھی ہوچکے ہیں۔اب آپ مشورہ دیں کہ میں کیا کروں ؟
صورتِ مسئولہ میں سائلہ کا بیان اگر واقعۃً صحیح ہےکہ اس کےشوہرنےاسے یہ الفاظ بولے ہیں کہ :’’ تم اپنے خاندان سے جس دن ملوں گی ،اس دن ہماری ایک طلاق ہوجائے گی‘‘ان الفاظ سے ایک طلاق رجعی بیوی (سائلہ )کا اپنے خاندان کے ساتھ ملنے سے معلق ہوگئی تھی،پھر جب کچھ عرصے بعد شوہر نے بیوی( سائلہ ) کو خود اپنے خاندان والوں کے پاس بھیجا تو شرط وقوع پذیر ہونے کی وجہ سے بیوی پر ایک طلاق رجعی واقع ہوچکی تھی،شوہر کو بیوی کی عدت (مکمل تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہواور ماہواری آتی ہو،اگر ماہواری نہ آتی ہو ،تو تین ماہ، اور حمل کی صورت میں بچہ کی پیدائش ہونے تک کے عرصہ)میں شوہر کو مطلقہ بیوی سے رجوع کا حق حاصل تھا،لیکن جب اس نےرجوع نہیں کیاتو سائلہ کی عدت مکمل ہوتے ہی نکاح ختم ہوچکا تھا،اب شوہر کو رجوع کا حق نہیں ہے،اور بیوی دوسری جگہ نکاح کرنے میں آزاد ہے۔
فتاوٰی ہندیہ میں ہے:
"وإذا أضافه إلى الشرط وقع عقيب الشرط اتفاقا مثل أن يقول لامرأته: إن دخلت الدار فأنت طالق."
(کتاب الطلاق، الباب الرابع فی الطلاق بالشرط، 420/1، ط: رشیدیة)
بدائع الصنائع میں ہے:
"أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت."
(کتاب الطلاق، فصل في حكم الطلاق، 180/3، ط: دار الكتب العلمية)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144607100782
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن