بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شیلاک کھانے کاحکم


سوال

ایک فتوی میں میں نے شیلاک کے بارے میں یہ پڑھا ہے کہ اس کو شہد پر قیاس کر لیا گیا ہے ،اور اس کے جواز کے لیے  عدم استقذار شرط ہے، یعنی گھن محسوس نہیں ہونا چاہیے، اس سلسلے میں مجھے یہ پوچھنا تھا کہ کیا اپنے نفس کے بارے میں سوچ کر فیصلہ کرنا ہے جیسا کہ انسان خالص شہد کو کھا سکتا ہے،اور اسے دیکھ کر گھن  محسوس نہیں ہوتا ہے ،یا اس خوراک کو دیکھنا ہے جو ہمارے سامنے ہے،  جس میں شیلاک ہے، اس لیے کہ ہو سکتا ہے اول الذکر سے گھن محسوس ہو ،لیکن آخر الذکر سے گھن محسوس نہ ہو۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں "شیلا ک" جولیک نامی کیڑے کے پیٹ میں موجود انڈوں سےنکالاجاتاہے ،اس کاداخلی استعمال یعنی  بطورِ خوراک کے   استعمال کرنا جائز نہیں ہے،اوریہ صرف اس وجہ سے  ناجائز نہیں کہ ان سے گھن یا کراہت محسوس کی جاتی ہے، بلکہ  شرعا ً کیڑوں اور ان کے پاخانہ وغیرہ کا استعمال  بطورِ خوراک  نا جائز ہے،نیز جہاں تک آپ فتوی کی بات کر رہے ہیں کہ اس میں"شیلاک" کو شہد پر قیاس کیا گیا ہے،اور دونوں میں حلال یا حرام ہونے کو  استقذار یا عدم استقذار کو علت قرار دیا گیا ہے،تو ان کا یہ قیاس کرنا صحیح نہیں ہے،کیوں کہ شہد کی حلت نصِ صریح سے ثابت ہے،جب کہ شیلاک جن اشیاء سے حاصل کیا جاتا ہے ان کا استعمال شرعاً ممنوع ہے،صرف یہ کہہ کر شیلاک کو جائز نہیں قرار دیا جاسکتا کہ اس میں عدم استقذار (کراہت کا محسوس نہ ہونا)ہے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(وبول ‌غير ‌مأكول ‌ولو ‌من ‌صغير لم يطعم)...(وروث وخثي) أفاد بهما ‌نجاسة ‌خرء كل حيوان غير الطيور."

(كتاب الطهارة، باب الأنجاس، ج:1 ص:318،320 ط: سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

"(ولا يحل) (ذو ناب يصيد بنابه)...(‌ولا) (‌الحشرات) هي صغار دواب الأرض واحدها حشرة....‌ثم ‌قال: ‌والخبيث ما تستخبثه الطباع السليمة....(قوله والخبيث إلخ) قال في معراج الدراية: ‌أجمع ‌العلماء على أن المستخبثات حرام بالنص وهو قوله تعالى - {ويحرم عليهم الخبائث}."

(كتاب الذبائح، ج:6 ص:304،305 ط: دار الكتب العلمية) 

البحرالرائق میں ہے:

"واعلم أن كل ما لا يفسد الماء لا يفسد غير الماء، وهو الأصح كذا في المحيط والتحفة ‌والأشبه ‌بالفقه كذا في البدائع لكن يحرم أكل هذه الحيوانات المذكورة ما عدا السمك الغير الطافي لفساد الغذاء وخبثه متفسخا أو غيره وقد قدمناه عن التجنيس."

(كتاب الطهارة، أحكام المياه، الماء المستعمل، ج:1 ص:95 ط: دار الكتاب الإسلامي)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

‌فما ‌لا ‌دم ‌له مثل الجراد والزنبور والذباب والعنكبوت والخنفساء والعقرب والببغاء ونحوها لا يحل أكله إلا الجراد خاصة

(كتاب الذبائح، الباب الثاني في بيان ما يؤكل من الحيوان وما لا يؤكل، ج:5 ص:289 ط: رشیدیة)

فتاوی رحمیہ میں ہے:

"سوال:  یہاں دکانوں میں لال شربت ملتا ہے،اس کے اندر جو سرخی اور لالی ہوتی ہے وہ ایک قسم کی مکھی سے کشید کی جاتی ہے۔اس مکھی کو پیس کر یا کسی اور طریقہ سے سرخی کشید کرتے ہیں اور اس کو شربت میں ملاتے ہیںتو اس شربت کا پینا کیسا ہے؟
الجواب:  مکھی اور چیونٹی میں دم سائل نہیں ہے، اس لئے پاک ہے، مگر کھانا حلال نہیں، خارجی استعمال درست ہے،داخلی استعمال درست نہیں،لہٰذا اس کا کوئی جزء شربت میں پڑتا ہوتو اس کا استعمال جائز نہ ہوگا۔"

     (کتاب الحظروالإباحۃ،باب ما یجوز أکلہ ومالا یجوز،ج:9  ص:138ط:دارالإشاعت)

بہشتی زیور میں ہے:

"کیڑے مکوڑے اور خشکی کے جملہ وہ جانور جن میں دم سائل نہ ہو،پاک ہیں، جیسے حشرات الارض بچھو ،تیتے،چھوٹی چھپکلی جس میں دم سائل نہ ہو،چھوٹا سانپ جس میں دم سائل نہ ہو،خارجاً ان کا استعمال ہر طرح درست ہے اور داخلاً سب حرام ہیں،سوائے ٹڈی کے۔"

                                       (نواں حصہ، ص104ط:میر محمد کتب خانہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505102104

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں