بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

شادی میں مردوں کو مہندی لگانا


سوال

سات محرم الحرام کو کربلا کے شہید شہزادہ قاسم ابن الحسن کے نام کی مہندی نکالی جاتی ہے ، اس کی کیا حقیقت ہے، اگر حضرت قاسم کی مہندی نکالنا جائز ہے تو پھر عام آدمی کی شادی بیاہ کے موقع پر مہندی ناجائز کیوں ہے ؟اور شیعہ حضرت قاسم کی مہندی کیوں نکالتے ہیں ،کیا وہ شہادت سے پہلے دولہا تھے ، یعنی اس سارے ماجرے کی کیا حقیقت ہے ؟

جواب

صوتِ مسئولہ میں  شادی کے موقع پرشرعی حدود میں رہتے  ہوئے  لڑکی کو مہندی لگانے  اور زیب  و  زینت  کرانے میں کوئی قباحت نہیں ہے،  اسی طرح لڑکی کے گھر والوں کے لیے   بھی اس خوشی کے موقع پر مہندی لگانے میں مضائقہ نہیں ہے، لیکن ہمارے معاشرے میں عموما  مہندی کی رسم جن لوازمات کے ساتھ ادا کی جاتی ہے،  ان لوازمات کے ساتھ اس رسم کو ادا  کرنا اور اس میں شرکت کرنا   جائز نہیں ، کیوں کہ اس میں اکثر وبیشتر  ہندوانہ رسموں کی نقل کی جاتی ہے، ان امور  کی وجہ سے  یہ  رسم  غیرشرعی اور قابلِ ترک  ہے۔

اسی طرح  ماہ محرم میں رسم مہندی کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ میدان کربلا میں امام قاسم رحمہ اللہ کا نکاح ہوا   اور سات محرم کو انہیں مہندی لگائی گئی، یہ اسی کی یاد گار ہے جوبشکل  جلوس منائی جاتی ہے، شرعا اس کا کوئی ثبو ت نہیں،نیز  مردوں کا سر اور داڑھی کےبالوں کے علاوہ ہا تھ پاؤں پر مہندی لگانا بھی درست نہیں ، جب کہ رسول اللہ ﷺ نے مردوں کو عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے سے اور عورتوں کو مردوں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے، اس لیے عورتوں کے ساتھ مشابہت ہونے کی وجہ سے دولہا کو مہندی   لگانا درست نہیں  ہے۔

ارشادِ خداوندی ہے : 

" ﴿وَلاَ تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا  اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ  وَكَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّه كَفُوْرًا﴾۔"

[بنی إسرائیل : ۲۶-۲۷] 

ترجمہ: "اور  ( اپنے  مال کو  فضول اور بے موقع ) مت اُڑاؤ ، یقیناً بے جا اُڑانے والے شیطانوں کے بھائی ہیں ، اور شیطان اپنے رب کا ناشکرا ہے "۔ 

حدیث مبارک میں ہے:

"قَال رسول اللّه صلى الله عليه وسلم: .... من تشبّه بقوم فهو منهم."

(المسند الجامع، (الجھاد)، ج:10 ص:716 ط: دار الجیل)

وفیه أیضًا:

"وعن عائشة رض قالت: أومت امرأة من وراء ستر بيدها كتاب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقبض النبي صلى الله عليه وسلم يده فقال: «ما أدريأيد رجل أم يد امرأة؟» قالت: بل يد امرأة قال: «لو كنت امرأة لغيرت أظفارك» يعني الحناء. رواه أبو داود والنسائي."

(باب الترجل، ج:2 ص:383 ط: قدیمی)

سنن أبي داودمیں ہے:

"حدثنا عبيد الله بن معاذ، حدثنا أبي، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن عكرمة، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم: «أنه لعن المتشبهات من النساء بالرجال، و المتشبهين من الرجال بالنساء»".

(باب فی لباس النساء، ج:4 ص:60 ط: المكتبة العصرية)

فتاوی شامی میں ہے:

"قوله خضاب شعره ولحيته) لا يديه ورجليه فإنه مكروه للتشبه بالنساء (قوله والأصح أنه عليه الصلاة والسلام لم يفعله) لأنه لم يحتج إليه، لأنه توفي ولم يبلغ شيبه عشرين شعرة في رأسه ولحيته، بل كان سبع عشرة كما في البخاري وغيره. وورد: أن أبا بكر رضي الله عنه خضب بالحناء والكتم مدني (قوله ويكره بالسواد) أي لغير الحرب.قال في الذخيرة: أما الخضاب بالسواد للغزو، ليكون أهيب في عين العدو فهو محمود بالاتفاق وإن ليزين نفسه للنساء فمكروه، وعليه عامة المشايخ، وبعضهم جوزه بلا كراهة روي عن أبي يوسف أنه قال: كما يعجبني أن تتزين لي يعجبها أن أتزين لها."

(کتاب الحظر والاباحة، ج:6 ص:422 ط: دار الفکر)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ولا ينبغي أن يخضب يدي الصبي الذكر ورجله إلا عند الحاجة ويجوز ذلك للنساء كذا في الينابيع."

 (الباب العشرون في الزينة، ج:5 ص:359 ط: دار الفکر)

فتاوی محمودیہ میں ہے:

سوال:شادی سے  کچھ دن  پہلے لڑکے کو مہندی لگاتے ہیں،اور ابٹن لگاتے ہیں،اورابٹن دانا چلا کر بنایا جاتا ہےمثلاً جو۔

جواب:یہ بھی کوئی شرعی چیز نہیں ،قابل ترک رسم  ہے،اور اس میں عورتوں کے ساتھ تشبہ ہے جس کی ممانعت آئی ہے۔

(کتاب النکاح، باب ما یتعلق بالرسوم عند الزفاف، ج:11  ص:192،194 ط:دار الافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101114

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں