بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وضو کے فضائل


سوال

وضوء کے فضائل  کیا ہیں۔

جواب

واضح رہے کہ وضو  کی بہت فضیلت آئی ہے ، ذیل میں چند نصوص(قرآن کی  آیت و احادیث مبارکہ ) ذکر کی جاتی ہیں۔

{آیت مبارکہ }

ارشاد ربانی ہے:

"یٰٓـاَیُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْهَکُمْ وَاَيْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُءُوْسِکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَيْنِ ط وَاِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوْا ط وَاِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَوْعَلٰی سَفَرٍ اَوْ جَآءَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآءَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءً فَتَیَمَّمُوْا صَعِيْدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِکُمْ وَاَيْدِيْکُمْ مِّنْهُ ط مَا یُرِيْدُ اللهُ لِیَجْعَلَ عَلَيْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّلٰـکِنْ یُّرِيْدُ لِیُطَهِرَکُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَهٗ عَلَيْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ."(المائدۃ، 5 : 6)

ترجمہ : از بیان القرآن
اے ایمان والو جب تم نماز کو اٹھنے لگو تو اپنے چہروں کو دھوؤ اور اپنے ہاتھوں کو بھی کہنیوں سمیت اور اپنے سروں پر ہاتھ پھیرو اور (دھوؤ ) اپنے پیروں کو بھی ٹخنوں سمیت ، اور اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو سارابدن پاک کرو اور اگر تم بیمار ہو یا حالت سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی شخص استنجے سے آیاہو یا تم نے بیبیوں سے قربت کی ہو پھر تم کو پانی نہ ملے تو تم پاک زمین سے تیمم کرلیا کرو یعنی اپنے چہروں اور ہاتھوں پر ہاتھ پھیر لیا کرو اس (زمین پر) سے الله  تعالیٰ کو یہ منظور نہیں کہ تم پر کوئی تنگی ڈالیں  لیکن الله تعالیٰ کو یہ منظور ہے کہ تم کو پاک صاف رکھے  اور یہ کہ تم پر اپنا انعام تام فرمادے تاکہ تم شکر ادا کرو ۔ ‘‘

احادیث مبارکہ :

1):۔ عن أبي هريرة   رضی اللہ عنہ، فقال: اني سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: (‌إن ‌أمتي يدعون يوم القيامة ‌غرا محجلين من آثار الوضوء، فمن استطاع منكم أن يطيل غرته فليفعل."

(الصحیح للبخاري، کتاب : الوضوء، باب : فضل الوضوء،ج:1، ص:63،  ، الرقم : 136، دار ابن كثير)

ترجمه:’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : قیامت کے روز میرے اُمتی اعضائے وضو کی چمک کے باعث سفید چہرے اور سفید ٹانگوں والے  کہہ کر بلائے جائیں گے۔ جو تم میں سے اپنی چمک کو بڑھانے کی طاقت رکھتا ہے اسے بڑھانی چاہیے۔‘‘

2):۔" عن عمرو بن عبسةَالسلمي : قال: فقلت: ‌يا ‌نبي ‌الله، ‌فالوضوء حدثني عنه. قال: ما منكم رجل يقرب وضوءه فيتمضمض ويستنشق فينتثر إلا خرت خطايا وجهه وفيه وخياشيمه. ثم إذا غسل وجهه كما أمره الله إلا خرت خطايا وجهه من أطراف لحيته مع الماء، ثم يغسل يديه إلى المرفقين إلا خرت خطايا يديه من أنامله مع الماء. ثم يمسح رأسه إلا خرت خطايا رأسه من أطراف شعره مع الماء، ثم يغسل قدميه إلى الكعبين إلا خرت خطايا رجليه من أنامله مع الماء. فإن هو قام فصلى فحمد الله وأثنى عليه ومجده بالذي هو له أهل، وفرغ قلبه لله إلا انصرف من خطيئته كهيئته يوم ولدته أمه."

(  الصحیح للمسلم، کتاب : صلاۃ المسافرین، باب : إسلام عمرو بن عبسۃ،ج:2، ص:208،  الرقم : 832، ط:دار الطباعة العامرة)

ترجمہ:’’حضرت عمرو بن عبسہ سلمی رضی اللہ عنہ (ایک طویل روایت میں) بیان کرتے ہیں کہ میںنے عرض کیا : یا نبی اللہ! مجھے وضو کے متعلق بتلائیے! آپ ﷺ نے فرمایا : تم میں سے جو شخص بھی ثواب کی نیت سے وضو کرتا ہے، کلی کرتا ہے، ناک میں پانی ڈالتا ہے، ناک صاف کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے چہرے، منہ اور نتھنوں کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے، پھر جب وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق چہرہ دھوتا ہے تو داڑھی کے اطراف سے اس کے چہرہ کے گناہ پانی کے ساتھ جھڑ جاتے ہیں، پھر جب وہ کہنیوں تک ہاتھ دھوتا ہے تو ہاتھوں کے پوروں سے پانی کے ساتھ اس کے ہاتھوں کے گناہ جھڑ جاتے ہیں، پھر جب وہ سر کا مسح کرتا ہے تو بالوں کے سِروں سے اس کے سر کے گناہ پانی کے ساتھ جھڑ جاتے ہیں اور جب وہ ٹخنوں سمیت پائوں دھوتا ہے تو پوروں سے لے کر ٹانگوں تک اس کے گناہ پانی سے جھڑ جاتے ہیں، پھر اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے جس میں اللہ تعالیٰ کی ایسی حمد و ثناء اور تعظیم کرے جو اس کی شان کے لائق ہے اور خالی الذہن ہو کر اللہ تعالیٰ کی عبادت کی طرف متوجہ رہے تو نماز سے فارغ ہونے کے بعد وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جائے گا جیسا کہ اس کی ماں نے اسے ابھی جنا ہو۔‘‘

3):۔ "عَن أَبِي أُمَامَةَرضی الله عنهأ، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " أيما رجل قام إلى وضوئه يريد الصلاة، ثم غسل كفيه، نزلت خطيئته من كفيه مع أول قطرة، فإذا مضمض واستنشق واستنثر، نزلت خطيئته من لسانه وشفتيه مع أول قطرة، فإذا غسل وجهه، نزلت خطيئته من سمعه وبصره مع أول قطرة، فإذا غسل يديه إلى المرفقين، ورجليه إلى الكعبين، سلم من كل ذنب هو له، ومن كل خطيئة، كهيئته يوم ولدته أمه، قال: فإذا قام إلى الصلاة، رفع الله بها درجته، ‌وإن ‌قعد، ‌قعد ‌سالما. ....وفي روایۃ له : قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من توضأ، فأسبغ الوضوء: غسل  يديه، ووجهه، ومسح على رأسه وأذنيه، ثم قام إلى الصلاة المفروضة، غفر الله له في ذلك اليوم ما مشت إليه رجله، وقبضت عليه يداه، وسمعت إليه أذناه، ونظرت إليه عيناه، وحدث به نفسه من سوء  قال: والله لقد سمعته من نبي الله صلى الله عليه وسلم ما لا أحصيه."

( أخرجه أحمد بن حنبل في المسند،ج:36، ص:601،،،605،  ط: مؤسسة الرسالة)

ترجمہ: ’’حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص نماز کے ارادے سے وضو کرنا شروع کرتا ہے اور اپنی ہتھیلیوں کو دھوتا ہے، پہلے قطرے کے ساتھ ہی اس کی ہتھیلیوں کے تمام گناہ ساقط ہوجاتے ہیں اور جب کلی کرتا ہے، ناک میں پانی ڈالتا ہے اور ناک جھاڑتا ہے تو اس کی زبان اور ہونٹوں کے تمام گناہ پہلے قطرے کے ساتھ ہی دھل جاتے ہیں اور جب اپنے چہرے کو دھوتا ہے تو اس کے تمام گناہ پہلے قطرے کے ساتھ ہی اس کے کان اور آنکھ سے نکل جاتے ہیں اور جب اپنے ہاتھوں کو کہنیوں تک اور پاؤں کو ٹخنوں تک دھوتا ہے تو وہ ہر گناہ سے محفوظ ہوچکا ہوتا ہے اور اس حالت میں ہوجاتا ہے جس میں اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : اگر وہ نماز کے لئے کھڑا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کا درجہ بلند کرتا ہے اور اگر بیٹھ جائے تو گناہوں سے پاک صاف ہوتا ہے۔۔۔’’اور دوسری روایت میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا : جس شخص نے مکمل وضو کیا، اپنے ہاتھوں اور چہرے کو دھویا، سر اور کانوں کا مسح کیا پھر فرض نماز ادا کی۔ اس کے اس دن کے وہ تمام گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں جو اس کے پاؤں نے چل کر، ہاتھوں نے پکڑ کر، کانوں نے سن کر یا آنکھوں نے دیکھ کر کیے اور اس کے دل نے برے ارادے کیے۔ راوی کہتے ہیں کہ خدا کی قسم! میں نے حضور نبی اکرم ﷺ سے اتنا کچھ سنا ہے کہ اسے شمار نہیں کرسکتا۔‘‘

4):۔"عن أبي هريرة؛أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أتى المقبرة فقال: "السلام عليكم دار قوم مؤمنين. وإنا، إن شاء الله، بكم لاحقون. وددت أنا قد رأينا إخواننا" قالوا: أولسنا إخوانك يا رسول الله؟ قال "أنتم أصحابي. وإخواننا الذين لم يأتوا بعد". فقالوا: كيف تعرف من لم يأت بعد من أمتك يا رسول الله؟ فقال "أرأيت لو أن رجلا له خيل غر محجلة. بين ظهري خيل ‌دهم ‌بهم. ‌ألا ‌يعرف خيله؟ " قالوا: بلى. يا رسول الله! قال "فإنهم يأتون غرا محجلين من الوضوء. وأنا فرطهم على الحوض."

(الصحیح للمسلم، کتاب : الطھارۃ، باب : استحباب إطالۃ الغرۃ والتحجیل في الوضوء، ج:1، ص:218،  الرقم : 249،  ط:دار إحياء التراث العربي)

ترجمہ:’’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ قبرستان(جنت البقیع) تشریف لے گئے اور فرمایا : السلام علیکم اے مؤمنو! ہم بھی ان شاء اللہ تمہارے پاس آنے والے ہیں۔ میری خواہش ہے کہ ہم اپنے (دینی) بھائیوں کو دیکھیں، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! کیا ہم آپ کے (دینی) بھائی نہیں ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا : تم میرے صحابہ ہو اور ہمارے (دینی) بھائی وہ لوگ ہیں جو ابھی تک پیدا نہیں ہوئے(بعد کے زمانوں میں پیدا ہوں گے)، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ اپنی امت کے اِن لوگوں کو کیسے پہچان لیں گے جو ابھی تک پیدا ہی نہیں ہوئے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : یہ بتلائو کہ کسی شخص کے ایسے گھوڑے جو سفید چہرے اور سفید ٹانگوں والے (پنج کلیان) ہوں، سیاہ گھوڑوں میں مل جائیں تو کیا وہ اپنے گھوڑوں کو ان میں سے شناخت نہیں کر سکے گا، صحابہ نے عرض کیا : کیوں نہیں! یا رسول اللہ! آپ ﷺ نے فرمایا : میری اُمت جس وقت میرے حوض پر آئے گی تو ان کے چہرے اور ہاتھ پائوں آثارِ وضو سے سفید اور چمکدار ہوں گے اور میں ان کے استقبال کے لیے پہلے سے حوض پر موجود ہوں گا ۔‘‘ 

5):۔" عن عمر بن الخطاب رضی الله عنه قال : قال رسول الله ﷺ :"ما منكم ‌من ‌أحد ‌يتوضأ فيبلغ (أو فيسبغ) الوضوء ثم يقول: أشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا عبد الله ورسوله، إلا فتحت له أبواب الجنة الثمانية، يدخل من أيها شاء."

(  الصحیح للمسلم، کتاب  الطھارۃ، باب  الذکر المستحب عقب الوضوء،ج: 1 ،  ص:209، الرقم : 234، ط: دار إحياء التراث العربي)

ترجمہ:’’حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص اچھی طرح وضو کرے پھر یہ کہے : أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُ اللهِ وَرَسُوْلُهُ، (میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور حضرت محمد ﷺ اللہ کے (خاص مقرب) بندے اور اس کے رسول ہیں) اس کے لیے جنت کے آٹھوں دروازے کھول دیے جاتے ہیں کہ جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہو جائے۔‘‘

6):۔"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن أحدكم إذا توضأ، فأحسن الوضوء، ثم أتى المسجد، لاينهزه إلا الصلاة، لم يخط خطوة، إلا رفعه الله عز وجل بها درجة، وحط عنه بها خطيئة، حتى يدخل المسجد."

(السنن لابن ماجه، باب ثواب الطهور، ج:1، ص:187،الرقم 281، ط:دار الرسالة العالمية)

ترجمہ:"جو شخص  اچھی طرح وضو کرتا ہے،  پھر مسجد آتا ہے اور  وہ صرف نماز کے  لیے آتا  ہے تو  ہر قدم کے بدلے اللہ تعالی اس کا درجہ بڑھا دیتے ہیں اور اس  کا ایک گناہ معاف فرماتے ہیں؛ یہاں  تک کہ وہ مسجد میں داخل ہوجائے ۔"

7):۔" عن ثوبان، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «استقيموا، ولن تحصوا، واعلموا أن خير أعمالكم الصلاة، ولا يحافظ ‌على ‌الوضوء ‌إلا مؤمن."

( السنن لابن ماجه، کتاب : الطهارۃ وسننها، باب : المحافظة علی الوضوء،ج: 1 ،ص: 101، الرقم : 277،ط:دار إحياء الكتب العربية)

ترجمہ:’’حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : دین پر قائم رہو اگرچہ تم اس کا احاطہ نہیں کر سکتے اور یہ بات جان لو کہ تمہارے تمام اعمال میں سب سے افضل عمل نماز ہے اور مومن کے سوا کوئی وضو کی پابندی نہیں کرتا۔‘‘ 

8):۔" عن أبي أمامة الباهلي، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «‌من ‌أوى ‌إلى ‌فراشه ‌طاهرا ‌يذكر ‌الله حتى يدركه النعاس لم ينقلب ساعة من الليل يسأل الله شيئا من خير الدنيا والآخرة إلا أعطاه إياه."

 ( السنن للترمذي، کتاب الدعوات، ج: 5 ، ص: 540، الرقم : 3526، ط:شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي)

ترجمه:’’حضرت ابو اُمامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : جو شخص با وضو ہو کر اپنے بستر پر لیٹے اور نیند آنے تک ذکر الٰہی میں مشغول رہے وہ رات کی جس گھڑی میں اللہ تعالیٰ سے دنیا و آخرت کی بھلائی مانگے اللہ تعالیٰ اسے عطا فرمائے گا۔‘‘۔

9):۔عن ابن عمر رضي الله عنه أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " طهروا هذه الأجساد ‌طهركم ‌الله، ‌فإنه ليس عبد يبيت طاهرا إلا بات معه ملك في شعاره لا ينقلب ساعة من الليل إلا قال: اللهم اغفر لعبدك فإنه بات طاهرا. "

(المعجم الکبیرللطبراني،ج: 12، ص: 446، الرقم : 13620، مكتبة ابن تيمية القاهرة)

’’حضرت (عبد اللہ) بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : (اپنے) ان جسموں کو پاک رکھا کرو، اللہ تعالیٰ تمہیں پاک رکھے گا، جو شخص رات کو پاک صاف ہوکر (باوضو) سوتا ہے اس کے جسم کے ساتھ لگنے والے کپڑے میں ایک فرشتہ رات بسر کرتا ہے۔ رات کو جب بھی وہ شخص کروٹ لیتا ہے، فرشتہ اس کے لئے دعا کرتا ہے : اے اللہ! اپنے اس بندے کو بخش دے، یہ رات کو پاک صاف (اور باوضو) ہو کر سویا تھا۔‘‘ امام طبرانی نے اس حدیث کو اچھی سند کے ساتھ روایت کیا ہے۔

10):۔"قال سمعت أنسا يقول قال لي رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: "يا بني إن استطعت أن تكون أبدًا على وضوء فافعل، فإن ملك الموت إذا ‌قبض ‌روح ‌العبد وهو على وضوء كتب له شهادة."

(شعب الایمان،فضل الوضوء،ج:3، ص:29، ط: دارالكتب العلمية)

ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرمارہے ہے کہ رسول اللہ ﷺ  نے مجھے  فرمایا کہ اے بیٹے اگر طاقت رکھتے ہو تو اس بات کی دہان رکھنا کہ تو ہمیشہ با وضوء ہو،اسی طرح ہی کرو(یعنی با وضوء رہو)چناچہ موت کا فرشتہ جب روح قبض کرتی ہے،تو جب بندہ باوضوء ہو تو شھادت کا رتبہ ومرتبہ  لکھا جاتا ہے۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144504100271

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں