بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وضو کے بعد اس کا بچا ہوا پانی پینا


سوال

وضو کرنے کے بعد جو پانی بچ جائے اس کا ایک گھونٹ پینا سنت سے ثابت ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ متعدد روایات میں اس قسم کا مضمون وارد ہوا ہے کہ جس میں  یہ ذکر ہے  کہ صحابئ رسول حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ وضو کے بعد بچا ہوا پانی نوش فرماتے تھے  اور یہ ارشاد فرماتے  کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے جس سے فی الجملہ اس عمل کا سنت ہونا  ثابت ہوتا ہے۔چناں چہ  بخاری شریف میں آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ  ظہر کی نماز پڑھ لینے کے بعد عصر کے انتظار میں بیٹھے ہوئے تھے،جب عصر کا وقت آیا  تو پورا وضو کرلینے کے بعد اس کا بچا ہوا پانی کھڑے ہوکر پی لیا  اور آخر میں ارشاد فرمایا کہ میں نے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو ایسے ہی کرتے ہوئے دیکھا ہے جیسا کہ میں نے ابھی کیا،اسی طرح مسند احمد کی  ایک روایت میں وارد ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے وضو میں اعضاء وضو کو تین،تین مرتبہ دھو یا او ر آخر میں اس کا بچا ہوا پانی پی لیا اور پھر یہ ارشاد فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ایسے ہی کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔ان تمام روایات سے اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ وضو کے بعد اس کا بچا ہوا پانی پینا سنت ہے۔باقی وضوکرنے کے بعد بچے ہوئے پانی سے صرف ایک گھونٹ پینا سنت نہیں ہے،   بلکہ  برتن میں بچا ہوا پورا  پانی پینا سنت  ہے، تاہم پانی زیادہ ہو تو جس قدر پی سکے پی لے۔

بخاری شریف میں ہے:

"عن علي رضي الله عنه أنه صلى الظهر، ثم قعد في حوائج الناس في رحبة الكوفة، حتى حضرت صلاة العصر، ثم أتي بماء، فشرب وغسل وجهه ويديه، وذكر رأسه ورجليه، ثم قام، فشرب فضله وهو قائم، ثم قال: إن ناسا يكرهون الشرب قياما، وإن النبي صلى الله عليه وسلم صنع مثل ما صنعت."

(ص:2130، ج:5 ،کتاب الأشربة، باب الشرب قائماً، ط:دار ابن کثیر)

مسند احمد میں ہے:

"عن علي أنه توضأ ثلاثا ثلاثا، وشرب فضل وضوئه، ثم قال   هكذا رأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم فعل."

(ص:275،ج:2 ،مسند علي بن ابي طالب رضي الله عنه،ط:مؤسسة الرسالة)

بدائع الصنائع میں ہے:

"ومنها أن يدعو عند كل فعل من أفعال الوضو بالدعوات المأثورة المعروفة، وأن يشرب ‌فضل وضوئه قائما، إذا لم يكن صائما."

(ص:23،ج:1 ،کتاب الطھارۃ،فصل آداب الوضو،ط:دار الکتب العلمیة)

حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:

"وأن يشرب من فضل الوضو قائما أو قاعدا لأنه صلى الله عليه وسلم شرب قائما من فضل وضوئه وماء زمزم."

(ص:77 ،کتاب الطھارۃ،فصل من آداب الوضو أربعة عشر شيئا،ط:دار الکتب العلمیة)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144408102592

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں