بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ورثاء میں سے کسی ایک وارث کا اپنے حصہ کے ترکہ کے بدلے رقم مانگنے کا حکم


سوال

ورثاء میں سے اگر کوئی وارث وراثت کے حصہ کے طور پر رقم مانگ رہا ہو تو کیا اُسے اپنے پاس سے رقم دے سکتے ہیں ؟ یا پھر مال وراثت میں سے ہی ادا کرنا ضروری ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ میت کے متروکہ مال وجائیداد میں ورثاء اپنے اپنے شرعی حصص کے بقدر مستحق ہوتے ہیں،اگر کوئی وارث ترکہ سے اپنا حصہ لینے کے بجائے حصے کی قیمت/رقم لینا چاہتا ہو، تو اس کی ادائیگی کی دو صورتیں ہیں، یا تو تمام ورثاء اس کے حصے کی مالیت لگاکر اس کی قیمت اپنے ہی مال میں سے  دے کر وہ حصے اپنی طرف کرلیں، یا کوئی ایک وارث اس کا حصہ خرید کر اپنی طرف سے رقم ادا کردے، دونو ں صورتیں شرعاً جائز ہیں،وراثت کے مال ہی سے ادائیگی ضروری نہیں۔ نیز اگر یہ صورت اختیار کی جائے کہ مرحوم کے ترکے کی رقم یا ترکے کی کوئی چیز دے کربقیہ ترکہ سے دستبرداری کا معاہدہ کرلیں جس کو شریعت کی اصطلاح میں تخارج کہا جاتا ہے، تو اس کی بھی شرعًا گُنجائش ہے۔ 

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا كانت التركة بين ورثة فأخرجوا أحدهما منها بمال أعطوه إياه والتركة عقار أو عروض صح قليلا كان ما أعطوه أو كثيرا".

 (كتاب الفرائض، الباب الخامس، ج:4، ص:268، ط:دار الفكر بيروت)

البحر الرائق میں ہے:

"قال - رحمه الله - (يبدأ من تركة الميت بتجهيزه) المراد من التركة ‌ما ‌تركه ‌الميت خاليا عن تعلق حق الغير بعينه".

(کتاب الفرائض، ج:8، ص:557، ط:دار الكتاب الإسلامي)

تبیین الحقائق میں ہے:

"قال - رحمه الله - (فإن وقع عن مال بمال بإقرار اعتبر بيعا)؛ لأن معنى البيع ‌قد ‌وجد فيه، وهو مبادلة المال بالمال عن تراض فتجري فيه أحكام البيوع، وهذا؛ لأن الأصل في الصلح أن يحمل على أشبه العقود له فتجري عليه أحكامه".

(كتاب الصلح، ج:5، ص:31، ط:دار الكتاب الإسلامي)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144503100193

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں