بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ورثاء میں دکان کے آمدن کی تقسیم


سوال

ایک مسئلہ معلوم کرنا تھا ، ايك شخص كا انتقال هوا ،ایک شخص کا چائے کا ہوٹل ہے ۔اور ایک ذاتی مکان ہے ، ہوٹل جائیدادی نہیں ہے صرف کاروبار ہے ، اس شخص کے   ورثاء ميں  بیوہ اور  دس بچے ہیں ،چھ لڑکے اور چار لڑکیاں ہیں  ،سب شادی شدہ ہیں، اس شخص کے انتقال کے بعد ہوٹل کے ماہانہ منافع میں سب بچوں کو حصہ ملےگا کہ نہیں ؟

2۔اگر ملے گا تو کتنا کتنا حصہ ہوگا؟اوریہ لوگ سب الگ ہوگئے ہیں ۔

 

جواب

1۔صورتِ مسئولہ میں مرحوم کے جس مکان کا ذکر کیا گیا ہے ،یہ  اس کے سب شرعی ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم ہو گا ،چاہے   مکان کی قیمت کے اعتبار سے تقسیم کر لیں  یا مکان کے حصے کر کے آپس میں اپنے حصوں کے بقدر تقسیم کر لیں ۔

2۔مذکورہ ہوٹل کی آمدنی اور منافع   میں سب ورثاء  حصہ دار ہیں ،اس لیےیہ  ان میں ان کے  شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم ہو ں گے ۔

مرحوم کی میراث تقسیم کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ  کہ مرحوم کےحقوق ِمتقدمہ  یعنی   تجہیز وتکفین کا خرچہ نکالنے کے بعد اگر ان  پر کوئی  قرضہ ہے،  تو اس کو ادا کرنے  کے بعد  اگر  انہوں  نے کوئی  جائز وصیت کی ہے تو اس کو ایک تہائی سے ادا کرنے کے بعد،  باقی منقولہ وغیر منقولہ ترکہ  کو 128 حصوں میں تقسیم کرنے کے بعد 16 حصے مرحوم کی بیوہ کو ،14 حصے  مرحوم کےہر ایک بیٹے کو ،جب کہ 7 حصے  ہر ایک بیٹی کو ملیں گے ۔

صورتِ تقسیم یہ ہو گی :

(میت )مسئلہ :8/ 128 

بیوہبیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
17
161414141414147777

یعنی  100  روپے میں سے مرحوم کی بیوہ کو  12.5 روپے ،10.937 روپے ہر ایک بیٹے کو ،جب کہ 5.468 روپے ہر ایک بیٹی کو ملیں گے ۔

شرح المجلہ  میں ہے :

’’الأموال المشترکة شرکة الملک تقسم حاصلاتها بین أصحابها علی قدر حصصهم". 

(الكتاب العاشر، الباب الأول، الفصل الثاني: في بيان كيفية التصرف في الأعيان المشتركة، ج:4،ص:14، الْمَادَّةُ :1073، ط:رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے :

"يقع ‌كثيرا في الفلاحين ونحوهم أن أحدهم يموت فتقوم أولاده على تركته بلا قسمة ويعملون فيها من حرث وزراعة وبيع وشراء واستدانة ونحو ذلك، وتارة يكون كبيرهم هو الذي يتولى مهماتهم ويعملون عنده بأمره وكل ذلك على وجه الإطلاق والتفويض، لكن بلا تصريح بلفظ المفاوضة ولا بيان جميع مقتضياتها مع كون التركة أغلبها أو كلها عروض لا تصح فيها شركة العقد، ولا شك أن هذه ليست شركة مفاوضة، خلافا لما أفتى به في زماننا من لا خبرة له بل هي شركة ملك كما حررته في تنقيح الحامدية."

(كتاب الشركة، ج :4،ص :307،ط :سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144411101903

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں