بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

ورثاء کو ان کے ظلم وزیاتی کی وجہ سے وراثت سے محروم کرنے کا حکم


سوال

میرا مسئلہ یہ ہے کہ میرےبہن بھائیوں نے کئی سال سےمجھےاورمیری اہلیہ کو بالکل چھوڑ دیاہے،انہوں نے مجھے اہلیہ سمیت گھر سے نکال دیاہے، میں ابھی 70ہزارروپے پر ملازمت کرتا ہوں، 23ہزارگھرکاکرایہ ہے، باقی گھرکے دیگر اخراجات ، اپنی اہلیہ کے علاج ومعالجہ میں لگ جاتےہیں، اگرمیں اپنی تنخواہ سے زندگی میں بچالوں تو میں یہ نہیں چاہتا کہ میں مرجاؤں اورمیرےترکہ میں سےان کو بطورِ وراثت کچھ مل جائے؛اس لئےمیں چاہتاہوں کہ میں اپنی تنخواہ کسی کودےدوں، اور اس کو اس بات کا وکیل بنا دوں کہ اس رقم سے آپ ہمارے اخراجات، علاج معالجہ کیا کریں، جوبچیں وہ اللہ کےراستےمیں کسی مسجد یامدرسہ میں دےدیں، توکیامجھے یہ اختیار حاصل ہے؟شرعی طورپرراہ نمائی فرمائیں!

جواب

واضح رہے ہر شخص اپنی زندگی میں اپنی جائیداد کا خود مالک ومختار ہوتا ہے، وہ ہر جائز تصرف اس میں کرسکتا ہے، کسی کو یہ حق نہیں  ہے کہ اس کو اس کی اپنی ملک میں تصرف کرنے سے منع کرے، نیز کوئی شخص اپنی زندگی میں کسی اجنبی شخص یا ادارہ کے لیے وصیت کرنا چا ہے توایک تہائی مال تک وصیت کرنے کی شرعاً  اجازت ہے، اس سے زائد کی وصیت جائز نہیں۔

لہٰذا صورتِ مسئولہ میں سائل اپنی زندگی میں گھریلو اخراجات ،  علاج و معالجہ اور ہر جائز تصرف کے لیے کسی کو اپنے مال میں اپنا نائب/وکیل اور موت کے بعد اپنا وصی بنانا چاہے توبناسکتا ہے، نیز کل مال کے ایک تہائی تک وصیت بھی کرسکتاہے، البتہ  وراثت کا حق اللہ تعالیٰ کی طرف سے طے کردہ ہے، اس میں کمی بیشی کرنے یا کسی وارث کو وراثت سے محروم کرنے کا اختیار انسان کو نہیں، لہٰذا سائل کے لیے جائز نہیں کہ اپنے ورثاء کو وراثت سے محروم کرے،باقی بہن بھائیوں نے اگرواقعی سائل کے ساتھ ظلم و زیادتی کی ہے تو وه آخرت ميں اس كے جواب ده هوں گے۔

احکام القرآن للجصاصؒ میں ہے:

"قال الله تعالى:( من بعد وصية يوصى بها أو دين) ظاهره يقتضي جواز الوصية بقليل المال وكثيره; لأنها منكورة لا تختص ببعض دون بعض; إلا أنه قد قامت الدلالة من غير هذه الآية على أن المراد بها الوصية ببعض المال لا بجميعه، وهو قوله تعالى: (للرجال نصيب مما ترك الوالدان والأقربون وللنساء نصيب مما ترك الوالدان والأقربون مما قل منه أو كثر) فأطلق إيجاب الميراث فيه من غير ذكر الوصية، فلو اقتضى قوله تعالى: (من بعد وصية يوصى بها أو دين) ‌الوصية ‌بجميع ‌المال لصار قوله تعالى: (للرجال نصيب مما ترك الوالدان والأقربون) منسوخا بجواز ‌الوصية ‌بجميع ‌المال، فلما كان حكم هذه الآية ثابتا في إيجاب الميراث وجب استعمالها مع آية الوصية، فوجب أن تكون الوصية مقصورة على بعض المال والباقي للورثة حتى نكون مستعملين لحكم الآيتين."

(سورة آلِ عمران، باب مقدار الوصية الجائزة، ج:2، ص:121، ط:دار الكتب العلمية، بيروت)

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"وعن أنس رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «‌من ‌قطع ‌ميراث ‌وارثه، قطع الله ميراثه من الجنة يوم القيامة» . رواه ابن ماجه."

(باب الوصايا، ج:2، ص:926، ط:المكتب الإسلامي، بيروت)

ترجمہ:”حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص اپنے وارث کی  میراث کاٹے گا،(یعنی اس کا حصہ نہیں دے گا) تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جنت کی میراث کاٹ لے گا(یعنی اسے جنت سے محروم کردے گا۔”

المبسوط للسرخسی میں ہے:

"قال: وللوصي أن يتجر بنفسه بمال اليتيم ويدفعه مضاربة ويشارك به لهم، وعلى قول ابن أبي ليلى رحمه الله ليس له أن يفعل شيئا من ذلك سوى التجارة في ماله بنفسه...ولكنا نقول: هو قائم مقام الموصي في ولايته في مال الولد، وقد كان للموصي أن يفعل هذا كله في ماله فكذلك الوصي."

(كتاب الوصايا، باب الوصي والوصية، ج:28، ص:28، ط:مطبعة السعادة، مصر)

العنایۃ میں ہے:

"‌وللمالك ‌أن ‌يتصرف في ملكه كيف يشاء."

(كتاب الوصايا، باب الوصية بثلث المال، ج:10، ص:442، ط:مطبعة مصطفي البابي الحلبي)

الجوهرۃ النیرۃ میں ہے:

"الوكالة في اللغة هي الحفظ ... وفي الشرع عبارة عن إقامة الغير مقامه في تصرف معلوم. قال رحمه الله: (كل عقد جاز أن يعقده الإنسان لنفسه جاز أن يوكل به) ؛ لأن الإنسان قد يعجز عن المباشرة بنفسه فيحتاج إلى توكيل غيره."

(كتاب الوكالة في بدايته، ج:1، ص:298، ط:المطبعة الخيرية)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ثم ‌تصح ‌الوصية ‌لأجنبي ‌من ‌غير ‌إجازة ‌الورثة، كذا في التبيين ولا تجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية."

(كتاب الوصايا، الباب الأول في تفسيرالوصية، ج:6، ص:90، ط:المطبعةا لكبري الأميرية ببولاق)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144605101830

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں