ہمارے والدین کی جائیداد میں کچھ مسائل چل رہے ہیں جس کے لیے ہمیں آپ سے فتوی چاہیے کہ اس کی تقسیم شرعی لحاظ سے ہوجائے،جب کہ کچھ لوگ چاہتے ہیں کہ وصیت کے مطابق ہو اور جو بہنوں کی رقم مقرر کی گئی ہے، انہیں وہی دی جائے گی ،اب آپ بتائیے کیا ٹھیک رہے گا؟
والد کی وصیت کے مطابق بیٹیوں کے لیے اس زمانے میں جو رقم مقرر کی گئی ہے وہ ملنی چاہیے تھی،جو کہ کسی بھی صورت میں چاہے وہ رقم ہو یا گھر یا زیور کی صورت میں ادا نہیں کی گئی،بہنوں کو اب تک کچھ ادا نہیں کیا گیا ہے،اور جو والدہ کے زیورات تھے اس کا بھی کچھ نہیں معلوم کہ کس کو کیا ملا؟اب چوں کہ بٹوارا کیا جارہا ہےتو اس میں ایک پیپر تیار کیا گیا ہے بھائیوں کی طرف سے (جس میں جائیداد کا بٹوارہ وصیت کے مطابق کیا جارہا ہے،اور ہر فرد کو وصیت کے مطابق ہی اس کا حصہ دیا جائے گا) جس پر تمام بہن بھائیوں کے دستخط لیے گئے کہ وہ راضی ہیں اس پر،جب کہ میں نے دستخط ابھی نہیں کیے اور میں اس تقسیم پر راضی بھی نہیں ہوں۔اور والد کی پہلی بیوی کی اولاد کا نہیں معلوم کہ ان کو لکھی گئی رقم ادا کی گئی یا نہیں۔ مہربانی کرکے آپ بتا دیجیے کہ یہ جائیداد کس طرح تقسیم کی جائے شرعی لحاظ سے یا کس طرح؟
ذیل میں بھائیوں کی جانب سے تیار کردہ ایگریمنٹ کی شقوں کو مختصرًا ذکر کیا جاتا ہے:
۱۔صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے مرحوم والد کا یہ کہنا کہ (میں بخوشی اپنی مذکورہ جائیداد اور رقم کو تقسیم کر رہا ہوں جس کو میرے بچوں،بچیوں اور اہلیہ نے بخوشی بلا کسی جبر و اکراہ کے قبول کیا)اس کے بعد جائیداد اور رقم کو زندگی میں عملاًتقسیم نہیں کیا تو محض نام کردینے سے شرعًا یہ ہبہ (گفٹ )مکمل نہیں ہوا،لہذا اگر تمام ورثاء عاقل ،بالغ ہوں اور وہ والد صاحب کی تقسیم پر راضی ہوں تو باہمی رضامندی سے والد صاحب کی تحریر کے مطابق بھی تقسیم کیا جاسکتا ہے ،لیکن اگر ورثاء کو اس پر اعتراض ہو تو والد مرحوم کی جائیداد اور رقم کو تمام ورثاء میں ان کے شرعی حصوں کے تناسب سے تقسیم کرنا ضروری ہے۔
۲۔اگر کسی وارث نے مرحوم کے انتقال کے بعد تمام ورثاء کی اجازت سے تعمیرات پر کوئی رقم خرچ کی ہے تو جس قدر رقم اس نے تعمیرات پر خرچ کی ہے اسی قدر رقم ترکہ کی تقسیم سے پہلے اسے ادا کردی جائے،اس کے بعدباقی ترکہ کی تقسیم کی جائے۔
۳۔ترکہ کی تقسیم سے پہلے کسی وارث کا اپنے شرعی حصہ سے دست برادر ہونا شرعًا درست نہیں ،البتہ اگر کوئی وارث اپنا شرعی حصہ نہیں لینا چاہتا یا وہ کسی دوسرے وارث کے حق میں بلا عوض دست بردار ہونا چاہتا ہے تو اس کی درج ذیل چار شرعی صورتیں ہیں:
مذکورہ تفصیل کی رو سے صورتِ مسئولہ میں درج بالا صورتوں میں سے کسی بھی صورت پر عمل کیا جاسکتا ہے،باقی محض زبانی کلامی یا حلف نامہ لکھ کر دینے سے دست برداری شرعًا معتبر نہیں ہوگی۔
الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:
’’بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة.“
(کتاب الہبۃ،ج۵،ص۶۸۹،ط:سعید)
وفیہ ایضاً:
"(ومن بنى أو غرس في أرض غيره بغير إذنه أمر بالقلع والرد) لو قيمة الساحة أكثر كما مر. (قوله بغير إذنه) فلو بإذنه فالبناء لرب الدار، ويرجع عليه بما أنفق جامع الفصولين من أحكام العمارة في ملك الغير."
(کتاب الغصب،ج۶،ص۱۹۴،ط:سعید)
تکملۃ رد المحتار علی الدر المختارمیں ہے:
"الإرث جبري لَايسْقط بالإسقاط."
(کتاب الدعوی،ج۷،ص۵۰۵،ط:سعید)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144303100310
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن