میرےوالد نے ایک فلیٹ پگڑی پر لیاتھا،میں بھی اپنے والدین کے ساتھ اس فلیٹ میں رہائش پذیر رہی ۔میں غیر شادی شدہ ہوں اور صحافت کے شعبے سے وابستہ ہوں،میرے والد کا 2002ء میں انتقال ہو گیا ،ان کے ورثا میں چار بیٹیاں اور ایک بیٹا اور ایک بیوہ تھی، پھر ان کے بعد میری والدہ کا بھی انتقال ہو گیا،ان کےیہ بھی یہی ورثاء تھے، والد نے ترکہ میں مذکورہ بالا فلیٹ اور کیش رقم چھوڑی، فلیٹ کی مالیت اور کیش کی رقم کا حساب لگا کر اس رقم کو تین بیٹیوں اورایک بیٹے کے درمیان تقسیم کر دیا گیا اور مجھے میرے حصے کے بدلے میں تمام ورثاء کی رضامندی سے یہ فلیٹ دے دیاگیا، 2022 ء میں مالک مکان نے زبردستی فلیٹ خالی کروا لیا ، اب میں عارضی طور پر بہنوئی کے گھر میں رہ رہی ہوں۔
سوال یہ ہے کہ فلیٹ کی جو رقم مجھے ملی ہے، بھائی اس میں حصے کا دعوی کر رہا ہے،جب ایک بار شروع ہی میں ترکہ کا فیصلہ ہو چکا تھا، تو کیابھائی کادعوی درست ہے ؟یہ وہ بھائی ہے جس نے مجھ سے قطع تعلقی کی ہوئی ہے، میرے پاس چندلاکھ ہیں، جن سے میں گھر کی تلاش میں ہوں، مجھے تو مزید پیسوں کی ضرورت ہے۔
واضح رہےکہ مروجہ پگڑی کا معاملہ شرعاً درست نہیں ہے، اس لیے کہ پگڑی نہ تو مکمل خرید وفروخت کا معاملہ ہے، اور نہ ہی مکمل اجارہ(کرایہ داری) ہے، بلکہ دونوں کے درمیان کا ایک ملا جلامعاملہ ہے، پگڑی پر لیا گیا مکان بدستور مالک کی ملکیت میں برقرار رہتا ہے،لہذا پگڑی کا لین دین شرعاً جائز نہیں ہے۔
پگڑی پر لیا جانے والا مکان تو مالک کی ملکیت میں ہوتا ہے، البتہ اس پگڑی کی مد میں دی جانے والی رقم دینے والے شخص ہی کی ملکیت ہوتی ہے، جب پگڑی پر لینے والا شخص مکان اس کے مالک کو واپس کرے گا تو اس کو وہ رقم واپس مل جائے گی۔لہٰذاصورت مسئولہ میں جب ترکہ کو تقسیم کرکےتمام ورثاء کی ضامندی سےایک بہن کو حصہ کےبدلے میں پگڑی والا مکان دےدیاگیاتو گویا بہن کو وہ رقم دے دی گئی جوپگڑ ی کی مد میں والد نے جمع کروائی تھی ،لہٰذا بھائی اس رقم کا بہن سے مطالبہ نہیں کرسکتا۔بھائی کا اب فلیٹ کی قیمت میں دعویٰ کرنا درست نہیں اور یہ پیسے سائلہ ہی کی ملکیت ہیں۔
فتاوی شامی میں ہے:
"وفي الأشباه : لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة، كحق الشفعة، وعلى هذا لا يجوز الاعتياض عن الوظائف بالأوقاف. (قوله: لا يجوز الاعتياض عن الحقوق المجردة عن الملك) قال: في البدائع: الحقوق المفردة لا تحتمل التمليك، ولا يجوز الصلح عنها."
( کتاب البیوع، ج:4، ص:518، ط: سعید)
فتاوی شامی میں ہے:
"(قوله: ثم شرع في مسألة التخارج) تفاعل من الخروج وهو في الاصطلاح تصالح الورثة على إخراج بعضهم عن الميراث على شيء من التركة عين أو دين قال في سكب الأنهر وأصله ما روي أن عبد الرحمن بن عوف - رضي الله تعالى عنه - طلق في مرض موته إحدى نسائه الأربع ثم مات وهي في العدة فورثها عثمان - رضي الله تعالى عنه - ربع الثمن فصالحوها عنه على ثلاثة وثمانين ألفا من الدراهم وفي رواية من الدنانير وفي رواية ثمانين ألفا وكان ذلك بمحضر من الصحابة من غير نكير اهـ.... أنهم لو أخرجوا واحدا، وأعطوه من مالهم فحصته تقسم بين الباقي على السواء وإن كان المعطى مما ورثوه فعلى قدر ميراثهم قال الشارح هناك وقيده الخصاف بكونه عن إنكار فلو عن إقرار فعلى السواء اهـ فتأمله."
( كتاب الفرائض، باب المخارج، ج:6، ص:711، ط: دار الفكر)
وفیہ ایضاً:
"(أخرجت الورثة أحدهم عن) التركة وهي (عرض أو) هي (عقار بمال) أعطاه له (أو) أخرجوه (عن) تركة هي (ذهب بفضة) دفعوها له (أو) على العكس أو عن نقدين بهما (صح) في الكل صرفا للجنس بخلاف جنسه (قل) ما أعطوه (أو كثر) لكن بشرط التقابض فيما هو صرف (وفي) إخراجه عن (نقدين) وغيرها بأحد النقدين لا يصح (إلا أن يكون ما أعطي له أكثر من حصته من ذلك الجنس) تحرزا عن الربا، ولا بد من حضور النقدين عند الصلح وعلمه بقدر نصيبه شرنبلالية وجلالية ولو بعرض جاز مطلقا لعدم الربا، وكذا لو أنكروا إرثه لأنه حينئذ ليس ببدل بل لقطع المنازعة."
( كتاب الصلح، فصل في التخارج، 5،ص:642، ط: دار الفكر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144612101330
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن