بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ترکہ کے نقدی ہونے کی صورت میں صرف نقد مال پر مصالحت کرکے اپنا حصہ چھوڑنے کا حکم اور جواز کی صورت


سوال

میرے نانا کا انتقال ہوا، اس کے والدین اس کی زندگی میں ہی فوت ہوچکے تھے، پھر اس  کی بیوہ(ہماری نانی) کا انتقال ہوگیا، ان کےوالدین پہلے ہی فوت ہوچکے تھے،اب ورثاء میں چار بیٹے اور چار بیٹیاں ہیں،نانا کی ایک زمین تھی جو کہ 72 لاکھ روپےمیں فروخت ہوئی،تو چاروں بیٹیوں نے کہا کہ ہمارے بھائی ہمیں اس میں سے جتنا حصہ دیں گے ہم ہنسی خوشی لے لیں گے، پھر  چاروں بھائیوں  نے پیسے ملا کر ایک ، ایک لاکھ ہر ایک بہن کو دیے، اور کہا کہ باقی ہمیں بخش دو، اب پوچھنا یہ ہے کہ نانا کی میراث میں بیٹیوں کا کتنا حصہ بنتا ہے، اور بھائیوں کا بہنوں میں سے ہر ایک بہن کو ایک ،ایک لاکھ دے کر باقی کے متعلق یہ کہنا کہ"ہمیں بخش دو" درست ہے؟، اس سے ان کا شرعی حصہ ختم ہوجائے گا؟

وضاحت: بہنوں نے ایک، ایک لاکھ روپے لے کر اپنا حصہ چھوڑ دیا تھا، اور وہ رضامند ہوگئی تھیں، اب بھی وہ راضی ہیں، ابھی صرف اتنا پوچھنا تھا کہ کیا ایسا کرنے سے ان کا حق باقی ترکہ سے ختم ہوگیا، اور ایسا کرنا شرعاً درست بھی تھا کہ نہیں؟

 بہنوں نے بھائیوں سے جو ایک ،ایک لاکھ روپے لیے،اور  باقی حصہ چھوڑا ، یہ مکان فروخت ہونے کے بعد ہوا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں مرحوم کا متروکہ مال(72لاکھ روپے)   چوں کہ نقدی کی صورت میں ہے، اس وجہ سے  بہنوں کا  بھائیوں سے ایک، ایک لاکھ روپے لے کر     والد(سائل کے نانا) کی میراث  میں سےاپنا شرعی حصہ چھوڑنا شرعاً درست نہیں ہے،کیوں کہ یہ ترکہ میں سے اپنے  حصے پر  ایک لاکھ روپے کے بدلے میں صلح کرنا ہوا،اور صلح بیع(خرید و فروخت) کے حکم میں ہے،گویا بہنوں نے 72 لاکھ روپے میں سے اپنا شرعی حصہ جوکہ چھ لاکھ روپے ہے کو ایک لاکھ روپے میں بیچ دیا ہے، اور اس میں سود کا شبہ پایا گیا، لہٰذا  مذکورہ معاملہ درست نہ ہوا، اور بہنیں   والد کے ترکے میں سے اپنے شرعی حصے کی حقدار ہیں،اس کے باوجود  اگر بہنیں والد کے ترکے میں سے کچھ مال لے کر  اپنا شرعی حصہ چھوڑنے پر راضی ہیں  اور بھائیوں سے مصالحت کرنا چاہتی ہیں  تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ بہنیں جتنی رقم پر صلح کرنا چاہتی ہوں، ان کے بھائی ان میں سے ہر ایک کو  اس نقدی  کے ساتھ تھوڑا بہت سامان وغیرہ بھی دے دیں، اس صورت میں  یہ معاملہ درست ہوجائے گا، اور اس کے بعد والد کے ترکے میں وہ مزید حصے کی حقدار نہیں ہوں گی۔

اگر بہنیں موجودہ معاملہ فسخ کرکے  نئے سرے سے معاملہ  کریں  اور والد کے حصے میں سے کچھ مال لے کر اپنا حصہ چھوڑ دیں  تو  ایسی صورت میں  مرحوم نانا اور ان کی بیوہ کی جائیداد تقسیم کرنے کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ  سب سے پہلے ان کے ترکہ میں سے حقوقِ متقدمہ (تجہیز و تکفین کے اخراجات ) نکالنے کے بعد،اگر ان کے ذمہ  کوئی قرض ہو تو اس کی ادائیگی کے بعد،اگر  انہوں  نے   کوئی جائز وصیت کی  ہو تو باقی ترکہ کے ایک تہائی میں اسے نافذ کرنے کے بعد  باقی ماندہ ترکہ  کے کل8حصے کرکے ان  کے ہر ایک بیٹے کو دو، دو حصے  ملیں گے۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت: 12 تخارج:8

بیٹابیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹیبیٹی
22221111
    تخارجتخارجتخارجتخارج

یعنی 100 روپے میں سے ان کے ہر ایک بیٹے کو 25، 25 روپے ملیں گے۔

لیکن ا

فتح القدير میں ہے:

"(وإذا كانت ‌الشركة ‌بين ‌ورثة فأخرجوا أحدهم منها بمال أعطوه إياه والتركة عقار أو عروض جاز قليلا كان ما أعطوه إياه أو كثيرا) لأنه أمكن تصحيحه بيعا. وفيه أثر عثمان، فإنه صالح تماضر الأشجعية امرأة عبد الرحمن بن عوف - رضي الله عنه - عن ربع ثمنها على ثمانين ألف دينار."

(كتاب الصلح ،فصل في التخارج،ج8،ص439،ط:دارالفكر)

الدر مع الرد میں ہے:

"(وفي) إخراجه عن (نقدين) وغيرها بأحد النقدين لا يصح (إلا أن يكون ما أعطي له أكثر من حصته من ذلك الجنس) تحرزا عن الربا."

(کتاب الصلح، فصل فی التخارج،ج5،ص642،ط:سعید)

وفیہ ایضا:

"(وحكمه وقوع البراءة عن الدعوى ووقوع الملك في مصالح عليه) وعنه لو مقرا أو هو صحيح مع إقرار أو سكوت أو إنكار فالأول حكمه (كبيع إن وقع عن مال بمال) وحينئذ (فتجري فيه) أحكام البيع."

(کتاب الصلح،ج5،ص630،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144306100024

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں