بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وجود سے پہلے پھلوں کو بیچنے کا حکم


سوال

میرا ایک آم کا باغ ہے میں اس پر پھول لگنے سے پہلے  بیوپاری کو بیچ سکتا  ہوں پتوں کی حالت میں، جب کے پھول لگنے سے یہ معلوم ہو جائے گا کہ آم کتنے نکلیں گے؟ میرے علاقہ میں اکثر اس طرح آم کو سودا ہوتا ہے۔ مہربانی کر کے رہنمائی کریں۔

جواب

واضح رہے کہ جس چیز کا وجود نہ ہو شریعت میں اس  کی خرید و فروخت جائز نہیں ہے؛ لہذا صورت  مسئولہ میں پھل کے وجود سے پہلے پھلوں کا بیچنا جائز نہیں ہے اور شرعاًیہ بیع باطل ہے۔ اس سے حاصل ہونے والی کمائی شرعا حلال نہیں ہوگی۔ اس کے بجائے اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ جو شخص آم خریدنے کے لیے آئے اس سے حتمی سودا نہ کیا جائے بلکہ اس سے وعدہ کر لیا جائے کہ جب آم اس باغ میں لگ  جائیں گے اور پکنے کی حالت کو پہنچ جائیں گے تب میں آپ کو فلاں دام فی من / کلو ( جو عرف ہو ) فروخت کرودوں گا اور پھر جب پھل لگ جائیں اور پکنے کے زمانے کو پہنچ جائیں اس وقت حتمی معاملہ کرلیا جائے۔ اس دوران باغ اور پھلوں کی مکمل حفاظت اور اخراجات باغ والے کے ہی ذمہ ہوں گے اور اخیر میں پھل اگر کسی وجہ سے کم نکلیں گے تو باغ سائل سے کم رقم وصول کرے گا اور اگر زیادہ نکلیں گے تو اسی حساب سے رقم زیادہ وصول کرے گا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(ومن باع ثمرة بارزة) أما قبل الظهور فلا يصح اتفاقا. (ظهر صلاحها أو لا صح) في الأصح. (ولو برز بعضها دون بعض لا) يصح. (في ظاهر المذهب) وصححه السرخسي وأفتى الحلواني بالجواز لو الخارج أكثر زيلعي. (ويقطعها المشتري في الحال) جبرا عليه

(قوله: أما قبل الظهور) أشار إلى أن البروز بمعنى الظهور، والمراد به انفراد الزهر عنها وانعقادها ثمرة وإن صغرت

(قوله: ظهر صلاحها أو لا) قال: في الفتح لا خلاف في عدم جواز بيع الثمار قبل أن تظهر ولا في عدم جوازه بعد الظهور قبل بدو الصلاح۔"

(کتاب البیوع ج نمبر ۴ ص نمبر ۵۵۴،ایچ ایم سعید)

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"وأما الذي يرجع إلى المعقود عليه فأنواع (منها) : أن يكون موجودا فلا ينعقد بيع المعدوم، وماله خطر العدم كبيع نتاج النتاج بأن قال: بعت ولد ولد هذه الناقة وكذا بيع الحمل؛ لأنه إن باع الولد فهو بيع المعدوم، وإن باع الحمل فله خطر المعدوم، وكذا بيع اللبن في الضرع؛ لأنه له خطر لاحتمال انتفاخ الضرع.، وكذا بيع الثمر، والزرع قبل ظهوره؛ لأنهما معدوم."

(کتاب البیوع،فصل في الشرط الذي يرجع إلى المعقود عليه ج نمبر ۵ ص نمبر ۱۳۸،دار الکتب العلمیہ)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307100805

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں