میں بیس سال کا لڑکا ہوں،ابھی میں ایک دینی کورس کر رہا ہوں جو چھ مہینوں تک مکمل ہو جائے گا، اس کے بعد میرا ارادہ درسِ نظامی کرنے کا ہے، میرے گھر والوں نے بچپن میں خالہ اور تایا کی اولاد سے وٹہ سٹہ کا رشتہ طے کر دیا تھا، میری بہن اس رشتے سے راضی ہے ،مگر جس لڑکی سے میرا رشتہ طے ہوا ہے اس کا دین سے بالکل لگاؤ نہیں ہے، مجھ سے عمر میں دو سال بڑی ہے، نمازیں بھی نہیں پڑھتی اور پردہ بھی نہیں کرتی اور فی الحال مخلوط تعلیم حاصل کر رہی ہے، تو کیا مجھے ایسی لڑکی سے شادی کرنی چاہیے؟ کیونکہ اگر میں اس رشتے سے انکار کر دیتا ہوں تو میری بہن کا رشتہ بھی ٹوٹ سکتا ہے،اور خالہ اور تایا سے رشتہ بھی خراب ہو جائے گا، اور اگر منظور کر لیتا ہوں تو مجھے ڈر ہے میری اگلی نسلوں پے اس کا اثر پڑے گا۔
صورتِ مسئولہ میں سائل کا جو رشتہ اس کے گھر والوں نے بچپن میں طے کردیا وہ لازم نہیں ہوا بلکہ وہ نکاح کا وعدہ ہے،اور اب سائل کو اس رشتہ کے برقرار رکھنے اور نہ رکھنے کا اختیار حاصل ہے،باقی رہی یہ بات کہ سائل اگر اس رشتہ پر سوال میں مذکورچند وجوہا ت کی بنا پر راضی نہیں ہے ،اور اگر اس رشتہ کو ختم کرتا ہے تو اس کی بہن کا رشتہ ختم ہوجائے گا،تو سائل کو چاہیےکہ پہلے وہ اپنے گھر والوں اور جن رشتہ دار کے ہاں سائل کا رشتہ طے کیا گیا ہے ان کو سمجھائےاور ان سے مشورہ کرے ،اور اگر سمجھانے کی کوئی ممکنہ صور ت نہ ہو تو اصلاح کی امید کرتے ہوئے سائل کا طے شدہ لڑکی سے نکاح کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144401100981
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن