میرے ماموں سخت بیمار تھے، ان کا علاج میں نے اپنے پیسوں سے کیا، میرےایک لاکھ پچاس ہزار روپے ان پر خرچ ہوئے، انہوں نے کہا تھا کہ تم خرچ کرتےرہنا، میرا ایک فلیٹ ہے، جب وہ بِکے گا تو اس سے تم اپنے پیسے لے لینا، پھر وہ فلیٹ تیرہ (13)لاکھ میں بک گیا، ماموں کے علاج میں باقی خرچہ خود ان کے پیسوں سے ہوا، یعنی تین لاکھ مزید ان کےعلاج میں ان ہی کے پیسوں میں سے خرچ ہوئے، ایک لاکھ ان کی تدفین میں خرچ ہوا اور چالیس ہزار کرایہ دار نے اپنے ایڈ وانس پیسے واپس لیے، اب تیرہ لاکھ میں سے چار لاکھ چالیس ہزار نکال کر آٹھ لاکھ ساٹھ ہزار رہ گئے ہیں ۔
میرے ماموں نے وصیت کی تھی کہ :میرے مرنے کے بعدمجھے یعنی سائل کو میرے ترکہ میں سے تین لاکھ روپے خوشی سے دے دیں، یہ ان پیسوں کے علاوہ کی وصیت کی تھی جو میرے ان کے علاج پر ایک لاکھ پچاس ہزار لگے تھے، اس وصیت کو میں نے اور میری اہلیہ نے سنا ہےاور ماموں کے ورثاءبھی اس پر راضی ہیں ، میرے ماموں کے ورثاء میں ایک بیٹاہے، بیوی کو وہ بہت پہلے طلاق دے چکےتھے، ماموں کےایک بھائی اور تین بہنیں ہیں ، ماموں کےوالدین پہلے انتقال کرچکے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ :
(1)میرے جو پیسے ان کے علاج میں خرچ ہوئے ہیں، ان کا کیاحکم ہے؟
(2) میرے بارے میں تین لاکھ کی جو وصیت کی ہے، اس کا کیا حکم؟
(3) اور ترکہ کیسے تقسیم ہوگا؟
(1)صورت مسئولہ میں اگر واقعۃً سائل نے اپنے ماموں کے علاج پر ڈیڑھ لاکھ روپے بطور قرض خرچ کیے تھے،اور ماموں نے کہاتھاکہ فلیٹ کے فروخت ہونے پر اپنی رقم واپس لے لینا،اس صورت میں مرحوم ماموں کی فلیٹ فروخت ہوجانے پر سائل اپنی خرچ کردہ رقم ڈیڑھ لاکھ واپس لینے کا حق رکھتا ہے۔
(2)نیزمرحوم ماموں نے سائل کےلیے جو تین لاکھ روپے کی وصیت کی ہے ،یہ وصیت مرحوم کےکل مال کے ایک تہائی میں نافذ ہو گی ،یعنی مرحوم کے ترکہ آٹھ لاکھ ساٹھ ہزار میں سے ایک تہائی سائل کو ملے گا اور بقیہ دو تہائی رقم مرحوم کے وارث کو ملے گی ۔
(3)مرحوم (ماموں) کے ترکہ کی شرعی تقسیم کا طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے اگر ان پر کوئی قرض ہو تو اسے ادا کیا جائے گا، اس کے بعد جو مال بچے گا، اس کے ایک تہائی حصے میں ان کی کی گئی وصیت نافذ کی جائے گی، اس کے بعدمابقیہ کل ترکہ مرحوم کے بیٹے کو دیا جائے گا، چونکہ مرحوم کا بیٹا موجود ہے، اس لیے مرحوم کے بھائیوں اور بہنوں کو شرعی طور پر ترکے میں کوئی حصہ نہیں ملے گا۔
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ثم تصح الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة، كذا في التبيين. ولاتجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية ... ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة."
(کتاب الوصایا ،الباب الأول في تفسير الوصية وشرط جوازها وحكمها،ج :6،ص:90 ،ط:دار الفکر،بیروت)
وفیه ایضاً:
"فأقرب العصبات الابن ثم ابن الابن وإن سفل ثم الأب ثم الجد أب الأب وإن علا، ثم الأخ لأب وأم، ثم الأخ لأب ثم ابن الأخ لأب وأم، ثم ابن الأخ لأب ثم العم لأب وأم ثم العم لأب ثم ابن العم لأب وأم، ثم ابن العم لأب ثم عم الأب لأب وأم ثم عم الأب لأب ثم ابن عم الأب لأب وأم، ثم ابن عم الأب لأب ثم عم الجد، هكذا في المبسوط".
(كتاب الفرائض، الباب الثالث في العصبات،ج:6، ص:451،ط:دارالفکر ،بیروت)
فقط وللہ اعلم
فتوی نمبر : 144610101248
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن