بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وساوس کا علاج


سوال

میرا سوال ماضی سے متعلق ہے جب انسان جوان ہو رہا ہوتا ہے تو وہ ناپاکی پاکی کا خیال اچھے سے نہیں رکھ رہا ہوتا،بہت سی چیزوں کے بارے میں ناپاکی پاکی کے مسائل کا پتہ نہیں ہوتا، اسی دوران اگر کچھ چیزیں ناپاک ہو جائے ،اور کسی کے گھر میں ہو وہاں احتلام وغیرہ ہو جائے، اور بستر ناپاک ہو جائے، اور پیروں میں پیشاب کی چھینٹیں لگ جائے،اور پھر  انہی ناپاک پیروں سےکارپٹ پر انسان چلے، تو کیا یہ سب چیزیں بھی ناپاک ہو جائے گی ،اور اگر ناپاک ہو جائے تو ان کو اطلاع کیسے کرے؟کیوں کہ اب ان باتوں کو کافی عرصہ گزر چکا ہے، اور دوسرایہ کہ جب میں ان کے گھر جاتا ہوں تو مجھے بہت وسوسے آتے ہیں کہ میرے اب کپڑے ناپاک ہو گئے، جس سے عبادت میں خلل ہوتا ہے، اور نماز قضا ہوتی ہے، اور یہ بے چینی مجھے بار بار پریشان کر رہی ہے، جس کی وجہ سے میں بہت زیادہ پریشان ہو چکا ہوں، تسلی بخش جواب دے کر رہنمائی فرمائے۔

جواب

     واضح رہے کہ ایک مسلمان ہونے کے ناطے بنیادی مسائل پاکی ناپاکی وغیرہ کا سیکھنا ضروری ہے،اور چھینٹوں کے بارے میں حکم یہ ہےکہ چھینٹیں  ظاہراورنمایاں ہوں ،اگر پیشاب چھینٹیں سوئی کی نوک کے برابر باریک غیر نمایاں ہوتو وہ معفو (معاف )ہے،اور ایسے  چھینٹوں کے پاؤں وغیرہ پرلگ جانے کے بعدکسی کپڑے یاکارپٹ چلنے کی وجہ سےاس پر لگنے سے وہ چیز ناپاک نہیں ہوگی ،البتہ یہ غیر نمایا ں چھینٹیں اتنی مقدار میں ہو کہ  اگر ان سب چھینٹیں کو ملایا جائےتو ان سب کی کل مقدار ہتھیلی کی گہرائی کے برابر ہو تو پھر یہ وہ چیز ناپاک کہلائے گی،اور اس کادھونا ضروری ہوگا   ،نیزچھینٹوں کا صرف وسوسہ نہ ہو کیوں کہ وسوسہ کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے۔

صورت مسئولہ میں اگر سائل کو کسی کے گھر احتلام ہو چکا تھا،اور سائل کو اس بات کا یقین ہے کہ بستر وغیرہ پر نجاست لگ  گئی تھی،اور اسی طرح سے اگر سائل کو اس بات کا یقین ہے کہ پیشاب کی  نمایا ں چھینٹیں تھی یاغیر  نمایاں چھینٹوں کی مقدار ہتھلی یا درہم کے بقدر تھی،اور پھر سائل  اسی پیشاب آلودہ پاؤں کارپٹ وغیرہ پر چلا ہے تو اس سے مذکورہ چیز ناپاک ہو جاتی ہے،لہذااس صورت میں مذکورہ گھر والوں کو کسی طریقہ سے اطلاع کرناضروری ہےکہ فلاں فلاں اشیاء ناپاک ہوگئی تھی،اس کو پاک کیا جائے۔

اور اگر سائل کو صرف گمان یاشک ہےکہمذکورہ  گھر  میں مذکورہ اشیاء ناپاک ہو چکی ہےتو اگر ان چیزوں پر  ظاہری نجاست نہ ہوتویہ محض وہم ہے کہ فلاں فلاں  چیز نجس ہوگئی ہے،اور اس گھر میں جا کر وساوس کا آنا کہ کپڑے ناپاک ہ وگیے ہے محض وساوس ہے،اور شیطانی خیالات ہے جوآپ کو عبادت اور  نماز  روکنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے،لہذا وساوس اور اوہام سے بچنے کی کوشش کرے،وہم اور وسوسے کا سب سے کار گر اور مفید  علاج یہی ہے کہ اس کی طرف بالکل  توجہ نہ دی جائے،    وساوس سے بالکل  پریشان نہ ہونا چاہیے، اور  ان کی طرف دھیان ہی نہ دینا چاہیے، نیز ایسے وساوس سے حفاظت کے لیے دعاؤں کا اہتمام کرنا چاہیے،نیز ایسی حالت میں وساوس کے باوجود نماز کی پابندی کرے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: ولو شك إلخ) في التتارخانية: ‌من ‌شك ‌في ‌إنائه ‌أو ‌في ‌ثوبه أو بدن أصابته نجاسة أو لا فهو طاهر ما لم يستيقن، وكذا الآبار والحياض والجباب الموضوعة في الطرقات ويستقي منها الصغار والكبار والمسلمون والكفار؛ وكذا ما يتخذه أهل الشرك أو الجهلة من المسلمين كالسمن والخبز والأطعمة والثياب اهـ ملخصا."

 (كتاب الطهارة، فرض الغسل، ج: 1 ص: 151 ط: سعید)

و فیہ ایضاً:

"(‌وبول ‌انتضح كرءوس إبر) وكذا."

(كتاب الطهارة، باب الأنجاس، ج:1 ص:322 ط: سعید)

الأشباہ والنظائر میں ہے:

"‌شك ‌في ‌وجود ‌النجس فالأصل بقاء الطهارة؛ ولذا قال محمد رحمه الله: حوض تملأ منه الصغار، والعبيد بالأيدي الدنسة، والجرار الوسخة يجوز الوضوء منه ما لم يعلم به نجاسة."

(القاعدة الثالثة: اليقين لا يزول بالشك، الأصل بقاء ما كان على ما كان، ص: 49 ط: دار الکتب العلمیة)

فتاوی ہندیۃ میں ہے:

"(ومما يتصل بذلك مسائل الشك) في الأصل من شك في بعض وضوئه وهو أول ما شك غسل الموضع الذي شك فيه فإن وقع ذلك كثيرا لم يلتفت إليه هذا إذا كان الشك في خلال الوضوء فإن كان بعد الفراغ من الوضوء لم يلتفت إلى ذلك ومن شك في الحدث فهو على وضوئه ولو كان محدثا فشك في الطهارة فهو على حدثه ولا يعمل بالتحري. كذا في الخلاصة."

(كتاب الطهارة، الباب الثاني في الغسل، الفصل الأول في فرائض الغسل، ج:1 ص:13 ط: رشیدیة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505101792

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں