بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وارث کے لیے وصیت کرنا


سوال

میری والدہ کا انتقال ہوا ہے، وارثین میں والد صاحب اور ہم چار بھائی ہیں، ہماری والدہ نے اپنی زندگی میں فرمایا تھا کہ جس بچے نے جو تحفہ میری زندگی میں مجھے ہدیہ کیا تھا، وہ میرے مرنے کے بعد واپس لے لے اور سب سے چھوٹے بھائی کو چین دے دے۔ ہم سارے بھائی اور بھابیاں متفق ہیں کہ والدہ نے اس کے لیے بولا تھا ،باقی جو چیزیں بچتی ہیں وہ بیچ کے کسی دینی مدرسے میں دے دیں،  اس سارے زیور کی ہم نے سنار سے قیمت الگ الگ  لگوائی ہے  اور اب ہم بھائی چاہتے ہیں کہ وہ چیزیں ہم خرید لیں، جس کو  جو خریدنی ہے وہ پیسے دے دے،  وہ پیسےدینی مدرسے میں دے دیے  جائیں۔ اس سارے معاملے میں دین اور شریعت کیا کہتی ہے ؟

جواب

واضح رہے کہ  اگر  وفات پانے والا شخص کسی وارث   کے حق میں وصیت  کرے  تو اس کا نفاذ دیگر ورثاء  کی رضامندی پر موقوف رہتا ہے، اگر وہ اجازت  دیں تو وصیت قابلِ عمل ٹھہرتی ہے، ورنہ کالعدم ہو جاتی ہے ،   لہذا صورتِ مسئولہ میں   اگر  تمام ورثا عاقل و بالغ ہوں اور  وہ سب اس بات پر راضی ہوں کہ سائل کی والدہ کی وصیت کے مطابق عمل کیا جائے تو اس کی اجازت ہے،  اس صورت میں ہروارث کو دیا ہوا ہدیہ  اور  سب سے چھوٹے بھائی کو چین ملے گی،  اور اگر  ورثا بھائی کو چین دینے کے بعد بقیہ تمام زیور کی قیمت لگا کر اسے کسی وارث پر بیچ دیں اور  اس کی قیمت دینی مدرسہ کو دینا چاہیں تواس کی بھی گنجائش ہے۔

الفتاوى الهندية (90/6):

"ثم تصح الوصية لأجنبي من غير إجازة الورثة، كذا في التبيين و لاتجوز بما زاد على الثلث إلا أن يجيزه الورثة بعد موته وهم كبار ولا معتبر بإجازتهم في حال حياته، كذا في الهداية ... ولا تجوز الوصية للوارث عندنا إلا أن يجيزها الورثة."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205201169

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں