بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

25 شوال 1445ھ 04 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

رونگ سائڈ آنے والی بائک کا ایکسیڈنٹ اور دیت کا حکم


سوال

ایک شخص رواں ٹریفک میں مین روڈ پر جارہا تھا کہ اچانک آگے والی گاڑی سامنے سے مڑ گئی اور ایک موٹر سائیکل سوار رات کے اندھیرے میں رانگ سائیڈ سے یعنی جانے والے روڈ پر الٹا آتے ہوئے گاڑی سے ٹکرا گیا،جس سے گاڑی کو کافی مالی نقصان پہنچا اور موٹر سائیکل بھی ٹوٹ گئی، نیز موٹر سائیکل سوار فوت ہوگیا۔ اس صورت میں دونوں فریقین یا ان کے لواحقین پر شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر سائل کا بیان واقعۃ صحیح ہے کہ موٹر سائیکل سوار رات کے اندھیرے میں اچانک رانگ سائڈ  سےآتے ہوئے گاڑی سے ٹکرا گیا اور مر گیا تو اس  صورت میں شرعا گاڑی والے پر کوئی ضمان نہیں آئے گا ، نہ بائک والے کی دیت گاڑی والے پر واجب ہوگی اور نہ بائک کو ہونے والا نقصان گاڑی والے پر واجب ہوگاکیونکہ اس میں گاڑی والے کا کوئی قصور نہیں ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"الأصل أن المرور في طريق المسلمين مباح بشرط السلامة فيما يمكن الاحتراز عنه.

(قوله: بشرط السلامة إلخ) لأنه يتصرف في حقه من وجه، وفي حق غيره من وجه، لكونه مشتركا بين كل الناس فقلنا بالإباحة مقيدا بالسلامة ليعتدل النظر من الجانبين، فيما يمكن الاحتراز عنه لا فيما لا يمكن، لأنه يؤدي إلى المنع من التصرفزيلعي ملخصا."

(کتاب الدیات، باب جنایت البہیمۃ ج نمبر ۶ ص نمبر ۶۰۲، ایچ ایم سعید)

بحوث فی قضایا فقیہۃ معاصرۃ میں ہے:

"أن الرجل الذي قفز أمام السيارة إن قفز بقرب منها بحيث لا يمكن للسيارة في سيرها المعتاد في مثل ذلك المكان أن تتوقف بالفرملة، وكان قفزه فجأة لا يتوقع مسبقا لدى سائق متبصر محتاط، فإن هلاكه أو ضرره في مثل هذه الصورة لا ينسب إلى سائق السيارة، ولا يقال: إنه باشر الإتلاف، فلا يضمن السائق، ويصير القافز مسببا لهلاك نفسه."

(قواعد و مسائل فی حوادث المرور ، ص نمبر: ۳۱۷، دار القلم)

فتح المعین علی شرح الکنز لملا مسکین میں ہے:

"لو اصطدم فارسان الخ ليس علي اطلاقه بدليل ما نقله شيخنا عن الاختيار حيث قال قال سافر رجل علي دابة فجاء راكب من خلفه فصدمه فعطب المؤخر لا ضمان علي المقدم و ان عطب المقدم فضمان علي المؤخر ."

(کتاب الدیات ، باب جنایت البہیمۃ ، ج نمبر ۳ ص نمبر ۵۰۴)

الفقہ الاسلامی و ادلتہ میں ہے:

"أما إذا كان المخطئ أحد المتصادمين، كان الضمان عليه باتفاق الفقهاء، كما لو صدم الماشي واقفاً، فالضمان على الماشي؛ لأنه هو المتسبب، ولو صدمت سفينة جائية سفينة واقفة، كان الضمان على صاحب السفينة الجائية إذا لم تكن الواقفة متعدية في وقوفها."

(القسم الخامس، فصل رابع، جنایۃ الحیوان ج نمبر ۷ ص نمبر ۵۷۹۰،دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101938

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں