بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1446ھ 03 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

وارث کا حصہ کا مطالبہ کرنا


سوال

میرے والد صاحب  کا انتقال ہوگیاہے اور والدہ حیات ہیں، میرے والد صاحب کے  نام ایک مکان ہےجس میں تین بھائی اور امی رہتی ہیں۔ میرے والدنے مرنے سے پہلے کہا تھا کہ میری بیوی کے مرنے  کے بعد ہی   گھر کےحصے کرنا، کیا اس کی کوئی شرعی حیثیت ہے ، کیا ہم اپنا حصہ نہیں مانگ سکتے؟

جواب

صورت مسؤلہ میں  سائل کے والد نے  انتقال سے پہلے جو کہا تھا  کہ اس کی بیوی کے انتقال کے بعد ہی حصہ کرنا اس کی حیثیت زیادہ سے زیادہ وصیت  کی ہے اور ایسی وصیت پر عمل کرنا یا نہ کرنا  ورثاء کے اختیار میں ہے، لہذا اگر سائل  اس پر عمل نہیں کرنا چاہتا  اور حصہ لینا چاہتا ہے  تو مذکورہ جائیداد میں سے اپنے حصہ کا مطالبہ کرسکتا ہے، دیگر شرکاء پر لازم ہے کہ جیسے ہی ممکن ہو ان کا حصہ ادا کردیں اور اگر نقد رقم سے حصہ دے سکتے ہیں تو بہتر ورنہ  اس گھر کو بیچ کر حصہ ادا کریں ۔

شرح المجلّۃ لرستم باز  میں ہے:

"لأحد الشریكین إن شاء باع حصته إلی شریکه و إن شاء باعها لآخر بدون إذن شریکه… أمّا في صورخلط الأموال واختلاطها التي بینت في الفصل الأول لایسوغ لأحد الشریکین أن یبیع حصته في الأموال المشترکة المخلوطة أو المختلطة بدون إذن شریکه، أما لو باعها بإذن شریکه أو باعها من شریکه جاز کما في الملتقی وغیره، والفرق: أن الشرکة اذا کانت بینهما من الاِبتداء بأن اشتریا حنطة أو ورثاها کانت کل حبة مشترکة بینهما، فبیع کل منهما نصیبه شائعاً جائز من الشریک والأجنبي، بخلاف ما اذا کان بالخلط أو الإختلاط؛  لأن کل حبة مملوکة لأحدهما بجمیع أجزائها لیس للآخر فیها شرکة، فإذا باع نصیبه من غیر إذن الشریک لایقدر علی تسلیمه إلا مخلوطاً بنصیب الشریک فیتوقف علی إذنه، بخلاف بیعه من الشریک للقدرة علی التسلیم. (مجمع الأنهر)  قلت: ومثل الخلط والإختلاط بیع مافیه ضرر علی الشریک أو البائع أو المشتری کبیع الحصة الشائعة من البناء أو الغراس أو الزرع بدون الأرض، وقد استوفینا الکلام علی ذلک في شرح المادة: (۲۱۵) و مثله لو باع أحد الشریکین بیتاً معیناً باع من دار مشترکة أو باع نصیبه من بیت معین منها فالبیع لایجوز. (رد المحتار) وذلک لتضرر الشریک الآخر عند القسمة إذ لوصح البیع في نصیب البائع لتعین نصیبه فیه."

(الکتاب العاشر : في أنواع الشرکات ، الباب الأوّل : في شرکة الملک وتقسیمها ، الفصل الثاني : في کیفیة التصرف في الأعیان المشترکة: 1/ 483 ، المادة: 1088، ط: فاروقیه کوئٹه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603103051

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں