بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

وراثت کی تقسیم کب کی جائے؟


سوال

میرا مسئلہ یہ ہے  کہ  میرے والد کا انتقال ہوئے ایک سال ہوگیا ہے ، ان کا ایک فلیٹ تھاجو  ان کے نام تھا، اب والدہ اس فلیٹ کو کرائے پردینا چاہتی ہیں ،  وہ یہ فلیٹ کرائے پر دے سکتی ہیں یا فوراً ورثاء کے درمیان اسے تقسیم کرنا ضروری ہے ،  ورثاء میں ہم 3بہنیں 2 بھائی اور والدہ ہیں؟

جواب

میراث کی تقسیم میں حتی الامکان جلدی کرنی چاہیے،بغیر کسی سخت مجبوری کے تاخیر کرنا درست نہیں،اس لیے کہ اگر بر وقت میراث کی تقسیم نہ  کی جائے تو آگے چل کر بہت سے مسائل کھڑے ہوجاتے ہیں ۔لہذاصورتِ مسئولہ میں اگر  مرحوم کے تمام ورثاء فلیٹ کرایہ پر دینے پر راضی ہیں تو اسے کرایہ پر دیناجائز   ہے ،تا ہم اس فلیٹ سے حاصل ہونے والے کرائے میں تمام ورثاء اپنے اپنے شرعی حصوں کی بقدر حقدار ہوں گے ،   اور  اگر تمام ورثاء بالغ اور سمجھ دار  ہوں  اور کوئی وارث تقسیم کا مطالبہ کرے تو تقسیم میں تاخیر کرنا جائز نہیں۔

ہدایہ میں ہے : 

"القسمة في الأعيان المشتركة مشروعة، لأن النبي - عليه الصلاة والسلام - باشرها في المغانم والمواريث، وجرىالتوارث بها من غير نكير، ثم هي لا تعرى عن معنى المبادلة، لأن ما يجتمع لأحدهما بعضه كان له وبعضه كان لصاحبه فهو يأخذه عوضا عما بقي من حقه في نصيب صاحبه فكان مبادلة وإفرازا، والإفراز هو الظاهر في المكيلات والموزونات لعدم التفاوت، حتى كان لأحدهما أن يأخذ نصيبه حال غيبة صاحبه، ولو اشترياه فاقتسماه يبيع أحدهما نصيبه مرابحة بنصف الثمن، ومعنى المبادلة هو الظاهر في الحيوانات والعروض للتفاوت حتى لا يكون لأحدهما أخذ نصيبه عند غيبة الآخر."

( کتاب القسمة ، ج:9 ص: 425 ، ط : دار الفكر )

فتاوی ہندیہ میں ہے:

 "دار بين رجلين نصيب أحدهما أكثر فطلب صاحب الكثير القسمة وأبى الآخر فإن القاضي يقسم عند الكل وإن طلب صاحب القليل القسمة وأبى صاحب الكثير فكذلك وهو اختيار الإمام الشيخ المعروف بخواهر زاده وعليه الفتوى."

 (کتاب القسمۃ، الباب الثالث في بيان ما يقسم و ما لا يقسم و ما يجوز من ذلك و ما لا يجوز۔ ج :5،ص: 207 ، ط: رشیدیۃ)

فتاوی شامی میں ہے : 

"(وقسم) المال المشترك (بطلب أحدهم إن انتفع كل) بحصته (بعد القسمة وبطلب ذي الكثير إن لم ينتفع الآخر لقلة حصته) وفي الخانية: يقسم ‌بطلب ‌كل وعليه الفتوى، لكن المتون على الأول فعليها المعول."

( كتاب القسمة، ج:6، ص:260، ط:سعيد)

مجلۃ الاحکام العدلیۃ میں ہے:

"(المادة 329) للمالك أن يؤجر حصته الشائعة من الدار المشتركة لشريكه إن كانت قابلة للقسمة ، أو لم تكن وليس له أن يؤجرها لغيره ولكن بعد المهايأة له أن يؤجر نوبته للغير."

(الکتاب الثانی فی الاجارات،ص:83،ط:نور محمد)

"المادة (1130) إذا طلب أحد الشريكين القسمة وامتنع الآخر فيقسمه القاضي جبرا إن كان المال المشترك قابلا للقسمة وإلا فلا يقسمه."

(الکتاب العاشر فی الشركات ،الفصل الثالث: في بيان قسمة الجمع ،ص: 218،ط؛نور محمد)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144408100755

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں