بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 جُمادى الأولى 1446ھ 14 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

ورثاء کا اپنےحصوں سے تحریرََادست برادارہونےکے بعد مطالبہ کرنا


سوال

ایک جائیداد کے پانچ وارثین ہیں جو اپنے اپنے حصہ کے مطابق جائیداد سے فائدہ اٹھاتے ہیں ، کچھ عرصہ بعد ان میں سے ایک کا انتقال ہو جاتا ہے اور اس کی کوئی اولادنہ ہونے سے اس کی اہلیہ اس حصہ سے مستفید ہوتی رہیں، اور کچھ عرصہ بعد اہلیہ کابھی انتقال ہوجاتا ہےتب اہلیہ کے دور کے رشتے دار اس حصہ کے دعوے دار بننا چاہتے ہیں جو شرعی طور پر جائز نہیں ہے اس لیے  بقیہ چار حصہ دار ان کو وہ حصہ دینے سے منع کرتے ہیں جس پر وہ لوگ عدالت سے رجوع ہوتے ہیں اب جو چار حصہ دار تھے ان کے حالات کے تحت عدالت سےرجوع ہونے میں قاصرتھے تبھی ان میں سے ایک حصہ دار کہتے ہیں کہ میں عدالت کے اخراجات بھی برداشت کروں گا اور اپنا زیادہ سے زیادہ وقت بھی لگاؤں گا،تب بقیہ تین حصہ دارکہتے ہیں ٹھیک ہے آپ عدالت کے ذریعے لڑو اور وہ حصہ آپ لےلو یہ بات وہ تحریری طور پر لکھ کر عدالت کے روبرو بھی پیش کرتے ہیں ایک لمبے عرصہ تک، یہ کیس نچلی دو عدالتوں سے ہوتا ہوا ہائکورٹ تک پہنچتا ہے اور وہاں بھی یہ چوتھے حصہ دار کیس جیت جاتے ہیں اب یہاں پر آپ سے مسئلہ دریافت طلب یہ ہیکہ کیس جیتنے کے بعد وہ حصہ کیس لڑنے والے صاحب لے لیں یا اس میں سے بقیہ تین کو بھی حصہ دیں جبکہ عدالت کے سامنے وہ اس حصہ سے دستبرداری کا تحریری اقرار نامہ داخل کر چکے ہیں۔ براہ کرم شرعی طور پر کیا جائز ہے معلوم کریں نوازش ہوگی۔

جواب

واضح رہے کہ میراث اور ترکہ میں جائیداد  کی تقسیم سے پہلے کسی وارث کا اپنے شرعی حصہ سے بلا عوض دست بردار ہوجانا شرعاً معتبر نہیں ہے، البتہ ترکہ تقسیم ہوجائےتو پھر ہر ایک وارث اپنے حصے پر قبضہ کرنے  کے بعد اپنا حصہ کسی  کو دینا چاہے  یا کسی کے حق میں دست بردار ہوجائے تو یہ شرعاً جائز اور  معتبر ہے۔ اسی طرح کوئی وارث ترکہ میں سے کوئی چیز لے کر (خواہ وہ معمولی ہی کیوں نہ ہو)  صلح کرلے اور ترکہ میں سے اپنے باقی حصہ سے دست بردار ہوجائے تو یہ بھی درست ہے، اسے اصطلاح میں " تخارج" کہتے ہیں۔ان دونوں صورتوں میں پھر ایسے شخص کا اس ترکہ میں حق باقی نہ رہے گا۔

لہذا صورتِ مسئولہ میں چوں کہ  بقیہ تین حصہ دار اپنے اپنے حصوں  پر قبضہ  یا اس کے عوض کسی دوسری چیز پر مصالحت کیے بغیر  محض تحریری طور پر دستبردار ہوئے ہیں،اس وجہ سے ان کی یہ دستبرداری شرعاً معتبر نہیں ہے، بلکہ وہ  جائیداد  میں اپنے شرعی حصے کے بدستور حق دار ہیں، عدالتی مقدمہ لڑنے والے وارث  پر لازم ہے کہ وہ  جائیداد کی شرعی تقسیم کرکے  ان کے تمام ورثاء کو ان کا شرعی حصہ دے دیں۔البتہ مقدمہ لڑنے والاوارث بقیہ تین ورثاء سے عدالت کے اخراجات کا مطالبہ کرسکتاہے۔

’’ تکملۃ رد المحتار علی الدر المختار‘‘ میں ہے:

"الإرث جبري لایسقط بالإسقاط."

(ج: 7/ص:505 / کتاب الدعوی، ط :سعید)

’’الأشباہ والنظائر‘‘ لابن نجیم  میں ہے:           

"لوقال الورث:ترکت حقي لم یبطل حقه إذ الملک لایبطل بالترک."

 (ص:309- ما یقبل الإسقاط من الحقوق وما لایقبله، ط:قدیمی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101533

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں