بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

26 شوال 1445ھ 05 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

وقف قبرستان میں تعمیر کرنا اور اس کا کرایہ وصول کرنا


سوال

ایک شخص نے زمین کا حصہ قبرستان کے لیے وقف کیا ،وقف کے بعد اس کے بیٹے نے اسی وقف شدہ زمین کے اوپر ایک گھر تعمیر کیا جو کہ اب گیراج کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور اس کا ماہانہ کرایہ سات ہزار روپے ہے۔ اب یہ پوچھنا ہے کہ یہ صاحب اس سات ہزار روپے کرائے کو اپنے ذاتی استعمال میں یا قبرستان کی کسی مد میں یا مسجد میں یا مدرسے میں استعمال کر سکتا ہے یا نہیں ؟ کیوں کہ جو گھر بنایا گیا ہے وہ شرعاً تو ناجائز ہے ،اب آیا یہ گھر منہدم کرنا ضروری ہے یا اس کا کرایہ کسی مدد میں لگ سکتا ہے اور جو 20 سال تک اس کا کرایہ وصول ہوتا رہا اس کا کیا کیا جائے ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں جب مذکورہ شخص نے زمین کا مذکورہ حصہ مسلمان اموات کی تدفین یعنی قبرستان کے لیے وقف کردیا تھا تواب اس موقوفہ زمین پر کسی مکان کی تعمیر درست نہیں تھی ، بلکہ اس زمین کو فقط اموات کی تدفین میں استعمال کرنا لازم ہے، لہذا مذکورہ شخص کےبیٹے نے اس موقوفہ قبرستان میں جو مکان تعمیر کیاتھا (جو اب گیراج کے طور پر استعمال ہورہاہے )یہ تعمیر شرعی اعتبار سے درست نہیں تھی،جب یہاں تدفین کی حاجت موجود ہے تو اس تعمیر کو ختم کرکے اس جگہ کو اموات کی تدفین  میں استعمال کرنا ضروری ہے،لہذا اس مکان کو منہدم کرنا ضروری ہے، اس کا ملبہ تعمیر کرنے والا لے سکتا ہے،اورمذکورہ شخص نے اس مکان کا  اب تک جو کرایہ حاصل کیا ہے اس کرایہ کو قبرستان  کی ضروریات میں خرچ کردیا جائے۔فتاویٰ رحیمیہ میں اسی طرح کے ایک سوال کے جواب میں ہے:

" (الجواب)حامدا و مصلیا ومسلما۔ یہ بات سمجھ لی جائی کہ واقف نے جس مقصد سے اپنی زمین وقف کی ہو ، اس وقف شدہ زمین کا استعمال واقف کی منشاء کے مطابق ہونا ضروری ہے ، اس میں  تبدیلی کرنا اور واقف کی منشاء کے خلاف عمل کرنا جائز نہیں  ہے شامی میں  ہے: شرط الواقف ، کنص الشارع (شامی ۳/۵۷۵  نیز شامی میں  ہے صرحوابان مراعاۃ غرض الواقفین واجبۃ (شامی ۳/ ۵۸۵)قبرستان مردوں  کی تدفین کے لئے وقف ہوتا ہے ، لہذا قبرستان کی پوری زمین اسی مقصد میں  استعمال ہونا چاہئے، اس کے علاوہ دوسرے کاموں  میں  وقف قبرستان کی زمین استعمال کرنا درست نہیں  ۔صورت مسئولہ میں  جب یہ وقف قبرستان ہے تو اس کی پوری زمین مسلمان مردوں  کی تدفین کے لئے ہی استعمال کرنا ضروری ہے ، اس زمین کا بیچنا یا کرایہ پر دینا جائز نہیں  ہے، انجمن کے ذمہ داروں  پر لازم ہے کہ قبرستان کی زمین حاصل کر کے اس زمین کا احاطہ کر کے اس کو محفوظ کرلیں  اور ا س میں  مسلمان مردوں  کی تدفین شروع کر دیں  اور واقف کی منشاء کے مطابق اس کا استعمال کریں  ۔جب شرعاً یہ حکم ہے تو دو ذمہ داروں  کا اس زمین کے سلسلے میں  دلالی لینا کیسے جائز ہوسکتا ہے ۔ فقط واﷲ اعلم بالصواب ۔"

(فتاوی رحیمیہ، عنوان :قبرستان کی زمین پر آمدنی کے لیے تعمیر کرنا، ج۹:،ص:۶۴،ط:دارالاشاعت)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"البقعة الموقوفة على جهة إذا بنى رجل فيها بناءً و وقفها على  تلك  الجهة يجوز بلا خلاف تبعًا لها، فإن وقفها على جهة أخرى اختلفوا في جوازه، و الأصحّ أنّه لايجوز، كذا في الغياثية."

(ج:۲،ص:۳۶۲،ط:رشیدیہ)

فتاوی شامی میں ہے :

’’على أنهم صرحوا بأن مراعاة غرض الواقفين واجبة.‘‘

(ج:۴،ص:۴۴۵،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101121

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں