بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وضو میں واجبات کیوں نہیں؟


سوال

وضو میں واجب کیوں نہیں ہوتے؟ اور نماز میں واجب کیوں ہوتے ہیں؟

جواب

فقہائے کرام نے لکھا ہے کہ وضو میں کوئی  واجب نہیں، اور اس کی دو وجوہات ذکر فرمائی ہیں:

1۔وضو عبادتِ مقصودہ نہیں، یعنی بذاتِ خود وضو مقصد نہیں، بلکہ وضو نماز میں داخل ہونے کے لیے وسیلہ ہے، اور نماز عبادتِ مقصودہ ہے؛ لہذا وضو میں واجب کوئی نہیں، اور نماز میں واجبات ہیں، وضو میں بھی واجبات ہوتے تو اصل اور وسیلہ دونوں میں فرق نہیں رہتا، بلکہ دونوں حیثیت میں برابر ہوجاتے۔

2۔"واجب حکم" ایسی دلیل سے ثابت ہوتا ہے جو دلیل ثبوت کے اعتبار سے ظنی ہو اور دلالت میں قطعی ہو، وضو کے حق میں ایسا کوئی عمل نہیں جو مذکورہ دلیل سے  ثابت ہوتا، اس لیے وضو میں واجب نہیں، جب کہ نماز کے حق میں  مذکورہ دلیل سے کئی امور ثابت ہیں؛ اس لیے نماز  میں واجبات موجود ہیں۔

البحرالرائق (1/49)میں ہے :

"أن الفرض ما ثبت بدليل قطعي لا شبهة فيه، قال فخر الإسلام في أصوله: الحكم إما أن يكون ثابتاً بدليل مقطوع به أو لا، والأول هو الفرض، والثاني إما أن يستحق تاركه العقاب أو لا، والأول هو الواجب إلخ ثم قال : وأما الفرض فحكمه اللزوم علماً بالعقل وتصديقاً بالقلب، وهو الإسلام، وعملاً بالبدن، وهو من أركان الشرائع، ويكفر جاحده، ويفسق تاركه بلا عذر، وأما حكم الوجوب فلزومه عملاً بمنزلة الفرض لا علماً على اليقين؛ لما في دليله من الشبهة حتى لايكفر جاحده، ويفسق تاركه، وهكذا في غير ما كتاب من كتب الأصول كالمغني والمنتخب والتنقيح والتلويح والتحرير والمنار وغيرها". 

حلبی کبیر میں ہے:

"ولیس للغسل و لا للوضوء واجب فلذا لم یذکرہ، قیل لانہ لو کان لساوی التبع الاصل، ای الوضوء  او الغسل الصلوۃ "۔(ص:14)

البحر الرائق شرح كنز الدقائق-(1 / 56)

"ولما فرغ المصنف من فرائض الوضوء شرع في بيان سننه إشارة إلى أن الوضوء لا واجب فيه لما أن ثبوت الحكم بقدر دليله والدليل المثبت له هو ما كان ظني الثبوت قطعي الدلالة وما كان بمنزلته كأخبار الآحاد التي مفهومها قطعي الدلالة ، ولم يوجد في الوضوء."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144205200036

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں