بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

4 ذو القعدة 1446ھ 02 مئی 2025 ء

دارالافتاء

 

عورتوں کا لباس کیسا ہونا چاہے؟


سوال

حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں سنا ہے کہ وہ بہت زیادہ کھلے کپڑے پہنا کرتی تھیں، اس سے کیا مراد ہے؟

اورشریعت میں عورت کتنا ڈھیلا لباس پہن سکتی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ لباس کے معاملہ میں شریعتِ مطہرہ نے عورت کو خاص وضع قطع کا پابند نہیں کیا، البتہ کچھ حدود وقیود رکھی ہیں جن سے تجاوز کی اجازت نہیں، ان حدود میں رہتے ہوئے کسی بھی وضع کو اختیار کرنے کی اجازت ہے۔ جن کا خلاصہ یہ ہے:۔

1۔لباس اتنا چھوٹا، باریک یا چست نہ ہو کہ جسم کے جن اعضاء کا چھپانا واجب ہے وہ یا ان کی ساخت ظاہر ہوجائے۔

2۔لباس میں عورت مرد کی، یا مرد عورت کی مشابہت اختیار نہ کرے۔

3۔کفار وفساق کی نقالی اور مشابہت نہ ہو۔

لہذا جس لباس میں مذکورہ شرائط پائی جاتی ہوں، عورت کے لیے  ایسا لباس پہننا جائز ہو گا اور اگر مذکورہ شرائط نہ پائی جائیں یا جولباس مردوں کا ہوتوعورت کے لیے ایسا لباس پہننا جائز نہیں ہوگا۔

اورجہاں تک حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہاکی لباس کی بات ہے تواس حوالے سے کوئی صریح روایت ہمیں نہیں ملی ۔

مشکات شریف میں ہے:

"عن عائشة أن أسماء بنت أبي بكر دخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم وعليها ثياب رقاق فأعرض عنه وقال: يا أسماء إن المرأة إذا بلغت المحيض لن يصلح أن يرى منها إلا هذا وهذا. وأشار إلى وجهه وكفيه."

ترجمہ:”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ حضرت اسماء بنت ابی بکررضی اللہ عنہ حضورﷺکی خدمت میں آئیں اورانہوں نےباریک کپڑےپہن رکھےتھے،جناب رسول اللہ ﷺنےان سے منہ پھیرلیااورفرمایاجب عورت ایام حیض کوپہنچ جائےیعنی بالغ ہوتواس کےجسم کاکوئی عضوبھی سوائےان کےاوران کےظاہرنہ ہوچاہیےاورآپﷺنےاپنےچہرےاورہاتھوں کی طرف اشارہ کیا۔“

(كتاب اللباس، الفصل الثالث، ج:2، ص:1250، ط:المكتب الإسلامي)

وفيه ايضاً:

"عن علقمة بن أبي علقمة عن أمه قالت: دخلت حفصة بنت عبد الرحمن على عائشة وعليها خمار رقيق فشقته عائشة وكستها خمارا كثيفا."

ترجمہ:” حضرت علقمہ بن ابو علقمہ اپنی والد ہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے بیان کیا کہ ایک دن حضرت عبدالرحمن بن ابوبکر ؓ کی صاحبزادی حفصہ، حضرت عائشہ ؓ کے پاس اس حالت میں آئیں، کہ انہوں نے باریک اوڑھنی اوڑھ رکھی تھی۔ حضرت عائشہ ؓ نے وہ باریک اوڑھنی پھاڑ ڈالی اور ان کو ایک موٹی اوڑھنی اڑھا دی۔“

(كتاب اللباس، الفصل الثالث، ج:2، ص:1251، ط:المكتب الإسلامي)

وفیه ایضاً:

"عن ابن عمرقال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من تشبه بقوم فهو منهم."

ترجمہ:”حضرت ابن عمررضی اللہ عنہمافرماتےہے کہ آپﷺنےفرمایاجس نےکسی قوم کی مشابہت اختیارکی تو وہ ان میں سے ہوگیا۔“

(كتاب اللباس، الفصل الثاني، ج:2، ص:1246، ط:المكتب الاسلامي)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"اتفق الفقهاء على أنه يجب على المرأة أن تلبس من الملابس ما يغطي جميع عورتها۔۔۔لباس المرأة قد يكشف عن العورة، وقد يسترها ولكنه يصف حجمها، وهو في كلتا الحالتين غير شرعي. فإن كان يكشف عنها بحيث يرى لون الجلد من تحته، فإما أن يكون ذلك أمام زوجها وإما أن يكون أمام الأجانب، وإما أن يكون في الصلاة أو خارجها ... يحرم تشبه النساء بالرجال في زيهن فلا يجوز للمرأة أن تلبس لباسا خاصا بالرجال، لأنه صلى الله عليه وسلم لعن المتشبهين من الرجال بالنساء والمتشبهات من النساء بالرجال."

(‌‌لباس المرأة، ‌‌اللباس الذي يصف أو يشف، ج:35، ص:196، ط:وزارة الأوقاف والشئون الإسلامية - الكويت)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144604100833

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں