بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ورثاء نے باہمی رضامندی سے جائیداد تقسیم کی بعد میں ایک وارث کا مزید مطالبہ کرنا


سوال

ایک شحص زید فوت ہوگیا،  لیکن اپنے دوبیٹوں عمر اور بکر کے درمیان اپنی زندگی میں اپنی جائیداد منقولہ و غیرمنقولہ تقسیم نہیں کی، عمراور بکرنے اپنی خوشی اور باہمی رضامندی سے جائیداد تقسیم کی اورقابض ہوگئے، پھرعمر  بھی اپنی جائیداد دو بیٹوں یوسف اور صالح کے درمیان تقسیم کیے بغیرفوت ہوگیا ،یوسف اور صالح نے بھی باہمی رضامندی سے خود تمام جائیداد تقسیم کی ،صالح کے چار بیٹے اورتین بیٹیاں ہیں۔ ان میں سے صرف ایک بیٹا نورمحمد بکر کے بیٹے تاج دین  سے (جو اپنے باپ کااکیلا وارث ہے) یہ مطالبہ کررہاہے کہ  چوں کہ آپ کے والدبکرکے پاس زمین زیادہ ہے (بائیس مرلے زیادہ تھی بمقابلہ عمر کے )اور میراحصہ چارمرلہ بنتاہے،لہذا یہ مجھے دیں بلکہ وہ عدالت میں کیس لڑکرلے بھی چکاہے، کیایہ چارمرلہ زمین نور محمد کے لیے  از روئے شریعت لیناجائزہے؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں اگر زید کے ورثاء میں عمر اور بکر صرف دو بیٹے تھے ،کوئی اور وارث نہیں تھا، اور ان دونوں نے اپنے والد زید کے انتقال کے بعد باہمی رضامندی اور اتفاق سے جائیداد تقسیم کی تھی ، اور اپنے اپنے حصے پر قابض ہوگئے تھے، تو ان کی یہ تقسیم اور اپنے اپنے حصے کا مالک بننا درست تھا۔

بعد ازاں عمر کے انتقال کے بعد اس کی متروکہ جائیداد اس کے دوبیٹوں (یوسف اور صالح )نے باہمی رضامندی سے آپس میں تقسیم کرلی جب کہ کوئی اور وارث نہیں تھا تو ان کا یہ عمل بھی درست تھا۔اب یوسف اور صالح کی اولاد فقط اسی حصے میں حق دار ہے جو ان کے والد نے ترکہ میں چھوڑی ہے۔

بکر کے ورثاء میں اگر ایک ہی بیٹا تاج دین ہے تو بکر کی جائیداد کا وہی مالک ہے۔ جب عمر اور بکر نے باہمی رضامندی سے جائیداد تقسیم کی تھی تو اب بعد میں عمر کے پوتے نور محمد کے لیے اپنے دادا (عمر)کے بھتیجے (تاج دین) پر دعوی کرنا اور اس سے جائیداد کا حصہ لینا شرعی طور پر جائز نہیں ہے، نور محمد جتنا حصہ تاج دین سے بذریعہ عدالت لے چکا ہے وہ واپس کرنا لازم ہے۔کسی مسلمان کا مال اس کی رضامندی کے بغیر لینا ناجائز ہے اور احادیث میں اس پر سخت وعیدیں آئی ہیں۔

مشکاۃ المصابیح میں ہے:

"عن سعيد بن زيد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من أخذ شبراً من الأرض ظلماً؛ فإنه يطوقه يوم القيامة من سبع أرضين»".

(مشكاة المصابيح، 1/254، باب الغصب والعاریة، ط: قدیمی)

ترجمہ:حضرت سعید  بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:"جو شخص( کسی کی ) بالشت بھر زمین  بھی  از راہِ ظلم لے گا، قیامت کے دن ساتوں زمینوں میں سے اتنی ہی  زمین اس کے گلے میں   طوق  کے طور پرڈالی  جائے گی"۔

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144302200027

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں