1.مرحوم کے کل 6 ورثاء ہیں :
بیوی ، والدین ،ایک نابالغ بیٹی ،دونابالغ بیٹے ،مرحوم نے اپنے ترکے میں مذکورہ چیزیں چھوڑی ہیں : نقد رقم= 6340706۔ منقولی اشیاء جن کی کل مالیت اندازا = 124250 ہے۔ سونے کا سیٹ = 40 گرام ۔یہ تمام چیزیں ورثاء میں کس طرح تقسیم ہوں گی؟
2. کیا یہ صورت ممکن ہوسکتی ہے کہ تمام منقولی اشیاء کا مالک ایک بالغ وارث کو بنادیا جائے اور اس کے عوض اس کے حصے میں آنے والی رقم منہا کرلی جائے ؟
3. کیا یہ جائز ہے کہ سونے کے سیٹ کو فی الحال باقی ترکے کی تقسیم سے الگ کردیا جائے بعد میں سہولت سے تمام ورثاء میں تقسیم کردیا جائے؟
4. کیا یہ جائز ہے کہ بالغ ورثاء میں سے کوئی فرد اپنا حصہ لیے بغیر معاف کردے یا ملکیت حاصل کرنا ضروری ہے؟
1.صورت مسئولہ میں مرحوم کے حقوقِ متقدمہ یعنی تجہیزو تکفین کا خرچہ اور قرض کی ادائیگی کے بعد، اگر مرحوم کی کوئی جائز وصیت ہو تو ایک تہائی ترکہ میں اس کو نافذ کرنے کے بعد کل جائیدادکو 120 حصوں میں تقسیم کیا جائے گا، جس میں سے مرحوم کی بیوہ کو15 حصے، والد کو 20حصے، والدہ کو 20حصے، ، ہر ایک بیٹے کو 26 حصے، اور بیٹی کو 13 حصے دیئے جائیں گے۔
صورت تقسیم یہ ہے:120/24
بیوہ | والد | والدہ | بیٹا | بیٹا | بیٹی |
3 | 4 | 4 | 13 | ||
15 | 20 | 20 | 26 | 26 | 13 |
یعنی ہر سو روپے میں سےمرحوم کی بیوہ کو 12.5روپے ،والدین میں سے ہر ایک کو 16.66روپے ،ہر ایک بیٹے کو 21.66روپے، اور بیٹی کو 10.83 روپے ملیں گے۔
2.نابالغ بچوں کے ولی یعنی بچوں کے دادا چونکہ موجود ہیں، اس لیے اگر وہ اس تقسیم میں بچوں کا مفاد سمجھتے ہوں کہ منقولی چیز کسی ایک وارث کو اس کے حصے میں آنے والی رقم کے بقدر دے دیں اور نقدر رقم بچوں کے لیے رکھ دیں تو ایسا کرنا جائز ہوگا۔
3.بچوں کے ولی یعنی دادا اگر سونے کی تقسیم کو فی الحال مؤخر کرنے میں بچوں کے لیے مصلحت سمجھتے ہوں تو سونے کی تقسیم کو مؤخر کرسکتے ہیں بشرطیکہ بقیہ بالغ ورثاء میں سے کوئی فوری اپنا حصہ طلب نہ کرے۔
4.حق وراثت جبری حق ہے جو ساقط کرنے یا معاف کرنے سے ساقط نہیں ہوتا، البتہ اگر کوئی وارث اپنا حصہ وصول کرلینے کے بعد کسی دوسرے کو ہبہ کرنا چاہے تو کرسکتا ہے۔
فتاوی شامی میں ہے :
"وعبارة المنية هكذا اقتسم الورثة لا بأمر القاضي وفيهم صغير أو غائب لا تنفذ إلا بإجازة الغائب أو ولي الصغير أو يجيز إذ بلغ."
(کتاب القسمۃ ، ج:۶،ص:۲۵۷،ط:سعید)
وفیه ایضاً:
"( وصحت برضا الشركاء إلا إذا كان فيم صغير ) أو مجنون ( لا نائب عنه ) أو غائب لا وكيل عنه لعدم لزومها حينئذ إلا بإجازة القاضي أو الغائب أو الصبي إذا بلغ أو وليه ،هذا لو ورثه، ولو شركاء بطلت منية المفتي وغيرها."
(کتاب القسمۃ ، ج:۶،ص:۲۵۷،ط:سعید)
وفیه ایضاً:
" الإرث جبري لَا يسْقط بالإسقاط".
(کتاب الدعوی،ج:۷،ص:۵۰۵ ، ط :سعید)
"الأشباہ والنظائر" لابن نجیم میں ہے:
"لو قال الوارث : تركت حقي لم يبطل حقه إذ الملك لا يبطل بالترك".
(ص:۳۰۹- ما یقبل الإسقاط من الحقوق وما لایقبله، ط:قدیمی)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144308100673
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن