بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ورثاء کا حق نہ دینا ظلم اورغصب ہے


سوال

میری والدہ کا انتقال ہوا ہے ،ان کےورثاء میں 3 بیٹے اور ہم  3 بیٹیاں ہیں،والدہ کا ایک گھر ہے، جب والدہ حیات تھیں تو ان کے ساتھ ایک بھائی اور ایک چھوٹی بہن رہتی تھی جو غیر شادی شدہ ہے، اس نے اپنی مرضی سے شادی نہیں کی، اس کی عمر 45 سال ہے،میری امی کو ابو کی پنشن ملتی تھی، اور ان کی کچھ رقم قومی بچت میں جمع تھی، مکان کا کچھ حصہ امی نے بیچ کر اوپر گھر بنا کر  کرایہ پر دیا تھا، اور ان کے مرنے کے بعد نیچے کا ایک حصہ کرایہ پر دیا، پنشن کنواری غیر شادی شدہ چھوٹی بیٹی کو مل رہی ہے ، یہ بہن اور ایک بھائی اس گھر میں رہتے ہیں اوپر نیچے کا سارا کرایہ خود رکھتے ہیں ، ہم کو نہ کرایہ میں سے حصہ دیتے ہیں نہ گھر بیچ کر حصہ دیتے ہیں اور جو  بینک میں جو رقم جمع تھی نہ اس میں سے کسی کو دیتے ہیں ، کہتے ہیں امی کے ساتھ ہم دونوں رہتے تھے ،لہذا ہم رہیں گے کرایہ بھی ہم رکھیں گے، کرایہ سے ہم بجلی گیس کا بل ادا کرتے ہیں ، اگر حصہ کی بات کریں تو لڑتے بھی ہیں ۔

جواب

ناحق کسی کا مال کھانا ناجائز اور حرام ہے، ناحق مال کھانے والے پر  قرآن وحدیث میں بہت سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں،  ایسے لوگ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں،  بلکہ بعض کتبِ فقہ میں منقول ہے کہ  ناحق مال کھانے والے سے ایک دانق (جو درہم کا چھٹا حصہ ہوتا ہے) کے  بدلے میں اس کی سات سو مقبول  نمازیں،حق دار کو دے دی جائیں گی، ظلم کوئی معمولی چیز نہیں ہے، ساری عبادتیں اس وقت ناکافی ہیں جب تک ظلم سے برات نہ ہو، ایک حدیثِ مبارک میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ رضوان اللہ علیہم سے دریافت کیا کہ: ”تم مفلس کس کو سمجھتے ہو؟ صحابہ رضوان اللہ علیہم نے عرض کیا کہ مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم اور دینار نہ ہوں،اور مال واسبا ب نہ ہوں،تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مفلس وہ ہے جو قیامت کے دن آئے اوراس نے نمازیں بھی پڑھی ہوں، اور روزے بھی رکھے ہوں،  اور زکات بھی دیتا رہا ہو، مگر اس کے ساتھ اس نے کسی کو گالی دی تھی، کسی پر تہمت لگائی تھی، کسی کا ناحق مال کھایا تھا، ناحق خون بہایا تھا، کسی کو مارا تھا،  اب قیامت میں ایک اس کی یہ نیکی لے گیا اور دوسرا دوسری نیکی لے گیا،یہاں تک کہ اس کی نیکیاں ختم ہوگئیں،لیکن پھر بھی حق دار بچ گئے ، تو پھر باقی حق داروں کے گناہ  اس پر لاد دیے جائیں گے، یہاں تک کہ وہ گناہوں میں ڈوب کر جہنم میں پھینک دیا جائے گا، یہ ہے حقیقی مفلس“ ایک حدیثِ مبارک میں ہے حضرت سعید بن زید سے مروی ہے  کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اگر کسی شخص نے ایک بالشت بھر زمین بھی ظلم سے لے لی، تو سات زمینوں کا طوق اس کی گردن میں ڈالا جائے گا۔ لہذا ورثاء کو ان کا حق دینا  ضروری ہے، اسی کی ادائیگی کی اولاً فکر کرنی چاہیے۔

1- صورت مسئولہ میں سائل کے والد اور والدہ کے مکان میں تمام ورثاء بیٹے اور بیٹیوں کا حصہ ہے، رہائش پذیر بھائی بہن کو چاہیے کہ والد اور والدہ کی تمام جائیداد اور رقم کو ان کے شرعی ورثاء میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کر کے ان کا حق ادا کریں، یا تو گھر کو بیچ کر اس کی رقم تمام ورثاء میں شرعی حصوں کے مطابق تقسیم کی جائے اور اگر وہ گھر خود رکھنا چاہتے ہیں تو موجودہ قیمت کے اعتبار سے باقی ورثاء کو ان کا حق دیں،ورثاء کو چاہیے کہ سمجھا بجھا کر اپنا حق وصول کریں ، اگر وہ دے دیں تو ٹھیک ہے، ورنہ ورثاء کو قانونی کاروائی کرنے کا حق حاصل ہوگا ۔

2- کرایہ:جب تک مکان فروخت نہیں ہوتااس وقت تک حاصل ہوناوالاکرایہ بھی درج ذیل تناسب سے تمام ورثاء میں تقسیم ہوگا۔

3۔ پنشن: ملازمین یا ان کے بعد ان کے لواحقین کو ملنے والی پینشن کی رقم  متعلقہ ادارہ کی طرف سے عطیہ اور تبرع ہوتی ہے، ادارہ  جس کے نام پر جاری کرے وہی اس کا مالک ہوتا ہے، اب اگر متعلقہ ادارے نے چھوٹی بیٹی کے نام پینشن جاری کی ہے تو وہی اس کی مالک ہے۔

صورتِ مسئولہ میں سائل  کے والدہ  کے ترکہ کی تقسیم کا شرعی طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے تجہیز و تکفین کے اخراجات نکالے جائیں،پھر  اگر مرحومہ  پر کوئی قرض ہو تو اسے ادا کیا جائے، پھر اگر مرحومہ نے کوئی  جائز  وصیت کی ہو تو باقی ترکہ کے ایک تہائی میں اسے نافذ کیا جائے، پھر اس کے بعد باقی تمام متروکہ جائیداد منقولہ و غیر منقولہ   کو 9 حصوں میں تقسیم کر کے 2/2 حصے  مرحومہ کے ہر بیٹے کو ور 1/1 حصہ ہر بیٹی کو دیا جائے گا۔

میت والدہ  مسئلہ 9

بیٹابیٹابیٹابیٹیبیٹیبیٹی
222111

یعنی کہ فیصد کے اعتبار سے مرحومہ کے ہر بیٹے کو 22.22 فیصد ،اور ہر بیٹی 11.11 فیصد دیا جائے گا ۔

صحيح مسلم میں ہے:

"عن أبي هريرة، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: «أتدرون ما المفلس؟» قالوا: المفلس فينا من لا درهم له ولا متاع، فقال: «إن المفلس من أمتي يأتي يوم القيامة بصلاة، وصيام، وزكاة، ويأتي قد شتم هذا، وقذف هذا، وأكل مال هذا، وسفك دم هذا، وضرب هذا، فيعطى هذا من حسناته، وهذا من حسناته، فإن فنيت حسناته قبل أن يقضى ما عليه أخذ من خطاياهم فطرحت عليه، ثم طرح في النار»".

(كتاب البر والصلة والآداب، باب تحريم الظلم، ج:4، ص:997، رقم الحديث:2581، ط:دار إحياء التراث العربي)

سنن دار می میں ہے:

"ان سعيد بن زيد، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول: "من ظلم من الارض شبرا، فإنه يطوقه من سبع ارضين".

(‌‌ كتاب البيوع، باب: من أخذ شبرا من الأرض، ج:3، ص:699، ط:دار المغني للنشر والتوزيع)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) میں ہے :

"الصلاة لإرضاء الخصوم لاتفيد، بل يصلي لله، فإن لم يعف خصمه أخذ من حسناته جاء: «أنه يؤخذ لدانق ثواب سبعمائة صلاة بالجماعة».(قوله: جاء) أي في بعض الكتب، أشباه عن البزازية، ولعل المراد بها الكتب السماوية أو يكون ذلك حديثاً نقله العلماء في كتبهم: والدانق بفتح النون وكسرها: سدس الدرهم، وهو قيراطان، والقيراط خمس شعيرات، ويجمع على دوانق ودوانيق؛ كذا في الأخستري حموي (قوله: ثواب سبعمائة صلاة بالجماعة) أي من الفرائض لأن الجماعة فيها: والذي في المواهب عن القشيري سبعمائة صلاة مقبولة ولم يقيد بالجماعة. قال شارح المواهب: ما حاصله هذا لاينافي أن الله تعالى يعفو عن الظالم ويدخله الجنة برحمته ط ملخصاً".

(‌‌‌‌كتاب الصلاة، باب شروط الصلاة، فروع في النية،ج:1،ص:439، ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144409101396

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں