موجودہ دور میں قربانی کے نصاب کا معیار سونا ہے، اس کا فتویٰ دیا جا سکتا ہے یا نہیں؟
واضح رہے کہ اصل نصاب چاندی کا نصاب ہے سونے کا نصاب اصل نہیں ہے، بلکہ ہر 10 درہم کا ایک مثقال بنتا ہے اس اعتبار سے سونے کا نصاب 20 مثقال یعنی ساڑھے سات تولہ سونا ہے لہذا صورتِ مسئولہ میں قربانی واجب ہونے کے لیے معیار چاندی کا نصاب ہی ہے سونے کا نہیں، اس حوالے سے فتوی میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں آئی۔
البتہ اگر کسی کے پاس صرف سونا ہو، اس کے ساتھ چاندی، مالِ تجارت، نقدی یا ضرورت و استعمال سے زائد کسی بھی قسم کا سامان نہ ہو تو اس صورت میں سونے کے نصاب کا اعتبار کیا جائے گا، لیکن سونے کے ساتھ مذکورہ بالا چیزوں میں سے کوئی بھی چیز ہوگی تو چاندی کا نصاب ہی معتبر ہوگا۔
نیز وجوب کی ادائیگی کے لیے ضروری نہیں کہ زیادہ رقم کا جانور قربان کیا جائے، وجوب کی ادائیگی کے لیے چند ہزار کا ایک حصہ کرلینا کافی ہے۔
حجۃ اللہ البالغۃ میں ہے:
"واستفاض أيضا أن زكاة الرقة ربع العشر، فإن لم يكن إلا تسعون ومائة فليس فيها شيء، وذلك لأن الكنوز أنفس المال يتضررون بانفاق المقدار الكثير منها، فمن حق زكاته أن تكون أخف الزكوات، والذهب محمول على الفضة، وكان في ذلك الزمان صرف دينار بعشرة دراهم فصار نصابه عشرين مثقالا."
(كتاب الزكاة، باب مقادير الزكاة، ج:2 ، ص: 67، ط: دار الجبل)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144412100381
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن