بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

21 شوال 1445ھ 30 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

وہ اعذار جن اعذار میں روزہ نہ رکھنا یا توڑنا جائز ہو جاتا ہے


سوال

 روزہ توڑنا کس حالت میں فرض اور واجب ہے اور کس حالت میں جائز ہےاور  کن حالتوں میں کھانا کھانا واجب اور فرض کے درجے میں ہے کن حالت میں مکروہ اور کن حالتوں میں مستحب؟

جواب

واضح رہے کہ رمضان شریف کے روزے ہر عاقل، بالغ مسلمان پر فرض ہیں، اور  کسی صحیح عذر کے بغیر روزہ نہ رکھنا یا توڑنا حرام ہے،شریعت نے  جن اعذار میں فرض روزہ  نہ رکھنے یا توڑنے   کی اجازت کی دی ہے ،وہ نو ہیں  ،ذیل میں ان اعذار کو کچھ تفصیل کے ساتھ ذکر کیا جاتا ہے۔

1)سفر : اگر  کوئی  شخص سفر  شرعی میں  ہو، تو اس کے لیے روزہ توڑنا یا نہ رکھنا جا ئز ہے،بعد   میں ان روزوں کی قضا لازم ہےالبتہ  اگر سفر میں کوئی مشقت نہیں تو روزہ رکھ لینا بہتر ہے۔

2)شدید بیماری:جو بیمار روزہ رکھنے کی طاقت رکھتا ہو، اور روزہ رکھنے سے اس کی بیماری بڑھنے کا اندیشہ نہ ہو، اس پر بھی روزہ رکھنا لازم ہے۔ اگر بیماری ایسی ہو کہ اس کی وجہ سے روزہ نہیں رکھ سکتا یا روزہ رکھنے سے  جان  یا کسی عضو کی ہلاکت یابیماری بڑھ جانے یا اس کی طوالت  کا خطرہ ہو تو اسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے، مگر جب تندرست ہوجائے تو بعد میں ان روزوں کی قضا اس کے ذمہ فرض ہے،کفارہ نہیں ہے۔

3،4)عورت کا حاملہ یا مرضعہ ہونا:حاملہ  یا مرضعہ کو اگر روزہ رکھنے سے اپنی جان یا بچہ کی جان کا خوف ہو تو اس کے لیے   روزہ نہ رکھنا یا توڑنا جائز ہے ،صحت کے بعد ان روزوں کی قضا کرنا ضروری ہو گا ،البتہ کفارہ لازم نہیں ہوگا ۔

5،6)شدید بھوک اور پیاس کا لگنا :نہ کھنے اور پینے سے ہلاکت  یا عقل کے نقصان کا اندیشہ ہو تو اس صورت میں روزہ توڑنا جائز ہے البتہ بعد میں  قضا  لازم ہے،کفارہ نہیں ہے۔

7)ہلاکت یا عقل کے نقصان کا خوف :چاہے کسی وجہ سے بھی ہو ،مثلاً سانپ  یا زہریلے جانور نے کاٹ لیا ہو ،اس صورت میں روزہ توڑنا جائز ہے،بعد میں قضا لازم ہے ،کفارہ نہیں ۔

8)جہاد :اگر مجاہد کو یقین ہے کہ آج جنگ ہو گی اور دوران جنگ ضعف کا خدشہ ہو تو اس کے لیے بھی افطار جائز ہے،بعد قضا لازم ہے ،کفارہ نہیں  ۔ 

9)اکراہ:یعنی اگر کوئی زبردستی کھانے پر مجبور کرے ،لیکن نہ کھانے کی صورت میں قتل ،کسی عضو کے تلف یا تکلیف دہ مار کا اندیشہ نہ ہو تو روزہ توڑنا جائز نہیں ہے ،اور اگر مذکورہ خطرات  کا اندیشہ ہو تو روزہ توڑنا جائز ہے ،اور ان مذکورہ خطرات پر صبر کر لیتا ہے  تو عند اللہ ماجور ہوگا ۔

نیز یہ واضح رہے کہ نفلی روزوں میں مذکورہ اعذار کے ساتھ ساتھ  ضیافت مہمان اور  میزبان دونوں کے لیے  عذر ہے ،اس کی تفصیل یہ ہے   اگر کسی شخص کے پاس کوئی مہمان آئے اور اس دن وہ شخص (میزبان) نفل روزے سے ہو اور مہمان ایسے ہوں کہ اگر میزبان ان کے ساتھ کھانے میں شریک نہ ہو تو ان کو برا لگے گا، اس طرح اگر کوئی شخص کسی کا مہمان بنے یا  کوئی شخص اس کی  کھانے کی دعوت کرے اور وہ شخص روزے سے ہو اور اس صورت میں  اگر یہ شخص کھانا نہ کھائے تو میزبان یا داعی کو برا لگ سکتا ہے تو اس شخص کے لیے نفل روزہ توڑکر کھانا کھالینے کی گنجائش ہے، کوئی گناہ نہیں  ہوگا ،لیکن  اس پر ضروری ہے کہ آئندہ اس کے بدلے میں ایک روزے کی قضا کرے،البتہ اگر  اس شخص اپنے اوپر اعتماد نہیں اس بات کا کہ وہ آئندہ روزہ رکھ سکے گا یا نہیں تو اسے روزہ نہ توڑنا چاہیے؛ بلکہ میزبان اور داعی کو معذرت کردینی چاہیے،ضیافت کی صورت میں یہ گنجائش زوال سے پہلے تک کی ہے ،زوال کے بعد روزہ توڑنا نہیں چاہیئے۔

جہاں تک حیض و نفاس کی بات ہے تو عورت کو حیض و نفاس کی حالت میں روزہ رکھنا جائز ہی نہیں،روزہ رکھنے کے بعد حیض اور نفاس کا خون آنے سے  روزہ ٹوٹ جاتا ہے، مگر رمضان شریف کے بعد اتنے دنوں کی قضا اس پر لازم ہے۔

نیز واضح رہے کہ جان بچانا فرض ہے ،اس لیے اگر اپنی جان یا بچہ کی جان کا خطرہ ہو تو اس صورت میں روزہ توڑنا  فرض اور واجب کے درجہ میں ہوگا ،ہاں سفر وغیرہ میں جہاں  جان کا خطرہ نہیں ،وہاں روزہ توڑنا جائز ہے ،البتہ  رکھنا بہتر ہے ،جہاں تک حیض اور نفاس کی بات ہے تو  اگر ان ایام میں روزہ آگئے ،تو اس میں تو روزہ  ہو گا ہی نہیں ،اور اگر دورانِ روزہ شروع ہو گئے تو روزہ از خود ٹوٹ ہی جائے گا ۔نیز  انسان پر  کھانا پینا شرعاً فرض و لازم ہے،  قدرت کے باوجود اگر کوئی شخص کھانا پینا چھوڑ دے، یہاں تک کہ مر جائے، یا اتنا کمزور ہوجائے کہ واجبات بھی ادا نہ کرسکے تو یہ شخص عند اللہ مجرم و گناہ گار ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وقد ذكر المصنف منها خمسة وبقي الإكراه وخوف هلاك أو نقصان عقل ولو بعطش أو جوع شديد ولسعة حية (لمسافر) سفرا شرعيا (قوله خمسة) هي السفر والحبل والإرضاع والمرض والكبر وهي تسع نظمتها بقولي:

وعوارض الصوم التي قد يغتفر … للمرء فيها الفطر تسع تستطر

حبل وإرضاع وإكراه سفر … مرض جهاد جوعه عطش كبر

(قوله وبقي الإكراه) ذكر في كتاب الإكراه أنه لو أكره على أكل ميتة أو دم أو لحم خنزير أو شرب خمر بغير ملجئ كحبس أو ضرب أو قيد لم يحل، وإن بملجئ كقتل أو قطع عضو أو ضرب مبرح حل فإن صبر فقتل أثم وإن أكره على الكفر بملجئ رخص له إظهاره وقلبه مطمئن بالإيمان ويؤجر لو صبر ومثله سائر حقوقه تعالى كإفساد صوم وصلاة وقتل صيد حرم أو في إحرام وكل ما ثبتت فرضيته بالكتاب. اهـ.وإنما أثم لو صبر في الأول لأن تلك الأشياء مستثناة عن الحرمة في حال الضرورة، والاستثناء عن الحرمة حل بخلاف إجراء كلمة الكفر فإن حرمته لم ترتفع وإنما رخص فيه لسقوط الإثم فقط، ولهذا نقل هنا في البحر عن البدائع الفرق بين ما إذا كان المكره على الفطر مريضا أو مسافرا وبين ما إذا كان صحيحا مقيما بأنه لو امتنع حتى قتل أثم في الأول دون الثاني (قوله وخوف هلاك إلخ) كالأمة إذا ضعفت عن العمل وخشيت الهلاك بالصوم، وكذا الذي ذهب به متوكل السلطان إلى العمارة في الأيام الحارة والعمل حثيث إذا خشي الهلاك أو نقصان العقل وفي الخلاصة: الغازي إذا كان يعلم يقينا أنه يقاتل العدو في رمضان ويخاف الضعف إن لم يفطر أفطر نهر (قوله ولسعة حية) عطف على العطش المتعلق بقوله وخوف هلاك ح أي فله شرب دواء ينفعه (قوله لمسافر) خبر عن قوله الآتي الفطر وأشار باللام إلى أنه مخير ولكن الصوم أفضل إن لم يضره كما سيأتي"

(کتاب الصوم،ج:2،ص:421،ط:سعید)

فتاوی عالمگیریہ  میں ہے:

"(الباب الخامس في الأعذار التي تبيح الإفطار) . (منها السفر) الذي يبيح الفطر وهو ليس بعذر في اليوم الذي أنشأ السفر فيه كذا في الغياثية۔۔(ومنها المرض) المريض إذا خاف على نفسه التلف أو ذهاب عضو يفطر بالإجماع، وإن خاف زيادة العلة وامتدادها فكذلك عندنا، وعليه القضاء إذا أفطر كذا في المحيط۔۔(ومنها حبل المرأة، وإرضاعها) الحامل والمرضع إذا خافتا على أنفسهما أو، ولدهما أفطرتا وقضتا، ولا كفارة عليهما كذا في الخلاصة۔۔(ومنها الحيض والنفاس) ، وإذا حاضت المرأة ونفست أفطرت كذا في الهداية۔۔(ومنها العطش والجوع كذلك) إذا خيف منهما الهلاك أو نقصان العقل كالأمة إذا ضعفت عن العمل وخشيت الهلاك بالصوم۔۔(ومنها: كبر السن) فالشيخ الفاني الذي لا يقدر على الصيام يفطر ويطعم لكل يوم مسكينا كما يطعم في الكفارة كذا في الهداية. والعجوز مثله كذا في السراج الوهاج. وهو الذي كل يوم في نقص إلى أن يموت كذا في البحر الرائق. ثم إن شاء أعطى الفدية في أول رمضان بمرة، وإن شاء أخرها إلى آخره كذا في النهر الفائق"

(کتاب الصوم،باب الاعذار التی تبیح الافطار،ج:1،ص؛206،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144501100390

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں