بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

عاقلہ اور بالغہ کا ولی کی اجازت کے بغیرنکاح اوریکطرفہ عدالتی خلع کاحکم


سوال

میں نے  ایک لڑکی کے ساتھ نکاح کیا ، ہم دونوں کو آپس میں محبت ہوگئی تھی ، تو نکاح لڑکی کے گھر والوں کو بتا کر نہیں کیا گیا ، نکاح مسجد کے امام صاحب سے پڑھوایاگیا، اس طرح کہ امام  صاحب نے اپنے کمرے میں بلالیاتھا، لڑکی بھی وہاں حاضر ہوگئی تھی ، میں بھی موجود تھااور میرے پانچ دوست بھی موجود تھے ، امام نے باقاعدہ خطبہ پڑھ کر ایجاب وقبول بھی کروایا ، نکاح نامہ ساتھ منسلک ہے ، پھر چھ ماہ بعد ہم نے رخصتی کرنا چاہی ، لڑکی نے جب اپنے گھر والوں کو بتایا تو گھر والوں نے کورٹ سے یکطرفہ   خلع لے لی ، کورٹ میں  نہ   میں حاضر  ہوا اور نہ ہی سائن کیاہے ،  پس مجھے ایک نوٹس آیاتھا، اسی طرح میری  بیوی بھی کورٹ کے  سامنے  پیش نہیں ہوئی تھی ، وہ اب بھی میرے ساتھ رہنے کے لیے تیار ہے ، ہمارے لیے کیا حکم ہے ، خلع معتبر ہے یانہیں ؟لڑکی کی عمر 27 سال ہے ، میری عمر 41 سال ہے، میراتعلق پنجاب سے ہے ، لڑکی والے یوسف زئی ہے ۔

جواب

صورت مسئولہ میں گھروالوں سے چھپ کر نکاح کرنا شرعاواخلاقاناپسند یدہ عمل ہے ، بہترہوتاکہ لڑکی کے گھروالوں کو راضی کرکے نکاح کیاجاتا،تاکہ لڑکی والوں کے لیے  شرمندگی اورعار کاباعث  نہ ہوتا، تاہم اس کے باوجود   ،جب سائل نے اس لڑکی کے ساتھ  شرعی   گواہوں  کی موجودگی میں نکاح کیاتھا، تو اس سے ان کے درمیان نکاح منعقد ہوگیاتھا، پھر اس کے بعد جب لڑکی والوں نے  کورٹ سے خلع لیا،نہ سائل عدالت گیااور نہ اس نے کسی طریقے سے خلع دینے پر آمادگی کااظہار کیاتھا لہذاشوہر کی رضامندی نہ پائی جانے  کی وجہ سے اس  سے شرعی خلع قرار نہیں دیاجاسکتا ، اس لیے کہ  خلع کے درست ہونے کے لیے میاں بیوی  دونوں کی  رضامندی ضروری ہوتی ہے ، جب تک دونوں  راضی نہ ہو  ں تو اس خلع کا شرعا اعتبارنہیں  ۔ لہذاسائل اور اس کی بیوی کے درمیان نکاح شرعا برقرار ہے ،دونوں بغیر تجدید نکاح کے شرعاگھر بساسکتے ہیں ۔ 

الدرالمختار میں ہے:

(فنفذ نكاح حرة مكلفة بلا) رضا (ولي) والأصل أن كل من تصرف في ماله تصرف في نفسه وما لا فلا۔

وفی الشامی :

(قوله فنفذ إلخ) أراد بالنفاذ الصحة وترتب الأحكام من طلاق وتوارث وغيرهما

( کتاب النکاح،باب الولي3/55ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے :

الحرة البالغة العاقلةإذا زوجت نفسها من رجل أو وكلت رجلا بالتزويج فتزوجها أو زوجها فضولي فأجازت جاز في قول أبي حنيفة وزفر وأبي يوسف الأول سواء زوجت نفسها من كفء أو غير كفء بمهر وافر أو قاصر غير أنها إذا زوجت نفسها من غير كفء فللأولياء حق الاعتراض.

( کتاب النکاح ،فصل ولاية الندب والاستحباب في النكاح2/247ط:سعید)

ہندیہ میں ہے :

ثم المرأة إذا زوجتنفسها من غير كفء صح النكاح في ظاهر الرواية عن أبي حنيفة - رحمه الله تعالى - وهو قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - آخرا وقول محمد - رحمه الله تعالى - آخرا أيضا حتى أن قبل التفريق يثبت فيه حكم الطلاق والظهار والإيلاء والتوارث وغير ذلك ولكن للأولياء حق الاعتراض

(کتاب النکاحالباب الخامس في الأكفاء في النكاح1/292 ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100683

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں