میرےگھروالوں نےمیرانام"ولید"رکھاتھا، پھرجب گھروالے پیدائشی سرٹیفیکیٹ بنارہےتھےتوکونسل والوں نےکہاکہ:کہ یہ نام سنگل ہے،اس کےساتھ کوئی اورلفط بھی لگایاجائے، تاکہ کل پھرپاسپورٹ میں مسئلہ نہ ہو، چناں چہ گھروالوں نےکہاکہ:لفظ"اللہ"لگادو، توانہوں نے"ولیداللہ"نام درج کردیا، پھرتمام کاغذات اورشناختی کارڈ میں یہی نام درج ہوا، پھرجب وفاق المدارس العربیہ میں حفظ کاامتحان دینےکےلیےداخلہ بھیجناتھاتوانہوں نےکہاکہ:اس نام کامعنی صحیح نہیں ہے، اسےتبدیل کرلیاجائے،توہم نےنادراسےرجوع کیا،انہوں نےکہاکہ:پہلےفتویٰ لےکرآئیں، پھرہم نام تبدیل کردیں گے۔
اب آپ حضرات شریعت کی روشنی میں جواب عنایت فرمائیں، کہ یہ نام رکھناصحیح ہےیانہیں؟
"ولید"نومولودبچےکوکہاجاتاہے، اور"ولید اللہ" کامعنی اللہ کاجناہوابنتاہے، اوریہ معنی شرعاًبالکل بھی درست نہیں، لہذاصورتِ مسئولہ میں جس بچے کانام لاعلمی میں "ولیداللہ"رکھاگیاہے، اسےتبدیل کرلیاجائے، آپ ﷺ بھی جب کسی کےنام کامعنیٰ نامناسب ہوتا تو اسے تبدیل فرماتےتھے ، بہتریہ ہےکہ انبیاءکرام علیہم الصلاۃ والسلام یاصحابہ کرام رضون اللہ علیہم اجمعین کےناموں میں سےکسی نام کاانتخاب کیاجائے، یہ باعثِ برکت ہے، ورنہ کوئی بھی اچھابامعنی نام منتخب کرسکتےہیں۔
قرآن کریم میں ہے:
{لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ}
(سورة الإخلاص, الآیه:3)
ترجمہ:"نہ کسی کوجنا، نہ کسی سےجنا۔"
سنن ابی داؤدمیں ہے:
"عن ابن عمر أن رسول الله صلى الله عليه وسلم غير اسم عاصية وقال: "أنت جميلة۔"
(کتاب الأدب، باب في تغيير الاسم القبيح، ج:4، ص:443، ط:المطبعة الأنصارية)
ترجمہ:حضرت ابن عمررضی اللہ عنہماسےروایت ہےکہ رسول اللہ ﷺ نےعاصیہ نامی عورت کانام تبدیل کرلیا، اورفرمایاکہ:آپ کانام جملیہ ہے۔"
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
"وفي الفتاوى التسمية باسم لم يذكره الله تعالى في عباده ولا ذكره رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا استعمله المسلمون تكلموا فيه والأولى أن لا يفعل كذا في المحيط."
(كتاب الكراهية،الباب الثاني والعشرون في تسمية الأولاد وكناهم والعقيقة،ج:5،ص:362،ط:دار الفكر)
فقط واللہ أعلم
فتوی نمبر : 144601101861
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن